Written by prs.adminMarch 16, 2013
Thousands Evicted to Make Way for Burma’s Economic Zone – برمی اقتصادی منصوبہ
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
تیس ہزار سے زائد افراد کو برما کے علاقے تھِلاوا میں قائم کئے جانے والے خصوصی اقتصادی زون کے باعث جبری انخلاءکا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ برمی چیمبر آف کامرس اور جاپانی ٹریڈ آرگنائزیشن کا مشترکہ منصوبہ ہے، مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ انہیں منصفانہ طور پر زرتلافی ادا نہیں کیا گیا۔
چون سالہ مینٹ کی،پئیار گونے نامی گاﺅں میں رہائش پذیر کاشتکار ہیں، تاہم انہیں زبردستی ان کے فارم سے نکالا جارہا ہے۔
مینٹ” میں بہت اداس ہوں اور علاقے سے نقل مکانی کا نوٹیفکیشن ملنے کے بعد سے سو بھی نہیں سکا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں اب کہاں جاﺅں گا”۔
یہ انکا واحد ذریعہ روزگار ہے، اور وہ ماہانہ سو ڈالرز تک کمالیتے ہیں۔اب تک حکومت کی جانب سے انہیں زرتلافی دینے کا کوئی باضابطہ اعلان نہیں ہوا، تاہم یہاں کے رہائشیوں نے علاقہ خالی کرنے سے انکار کیا تو انہیں ایک ماہ قید کی سزا کا اعلان ضرور کردیا گیا ہے۔
مینٹ” انھوں نے ہمیں علاقہ چھوڑنے کا حکم اس وقت سنایا جب ہم فصل بو چکے تھے، ہم نے کاشتکاری کیلئے قرض لیا تھا جو چکانا بھی ہے، ہم اداس اور پریشان ہیں کہ یہ قرضہ کس طرح چکائیں گے، اگر ہم یہاں سے چلے جاتے ہیں، تو ہمارے لئے کسی اور جگہ زمین خریدنا ناممکن ہوگا، کیونکہ ہمارے پاس پیسے نہیں۔ ہم کسی اور جگہ گئے تو وہاں کاشتکاری سے منافع نہ ہونے کے برابر ہوگا اور ہمارے لئے زندہ رہنا مشکل ہوجائے گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اب میں کس طرح کاشتکاری کا سلسلہ جاری رکھ سکوں گا”۔
تیس دیہات سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کو زبردستی علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور تھِلاوا اکنامک زون منصوبے کیلئے چوبیس سو ایکڑ زمین حاصل کی گئی ہے۔یہ منصوبہ 2015ءتک کام کرنا شروع کردے گا، جبکہ اس سے ملکی معیشت کو فروغ ملنے کے ساتھ ساتھ مقامی افراد کو روزگار بھی ملے گا، تاہم یُو مینٹ کی کسی نئی ملازمت کی صلاحیت اپنے اندر محسوس نہیں کرتے۔
یُو مینٹ کی” میں بوڑھا ہوچکا ہوں، مجھے ڈرائیونگ کرنا نہیں آتی، جبکہ کوئی شخص مجھے سیکیورٹی گارڈ کی حیثیت سے رکھنا بھی پسند نہیں کرے گا۔ کوئی شخص مجھے کسی کام کے لئے کام دینا نہیں چاہے گا، مجھے سمجھ نہیں آتا کہ نئی زندگی کا آغاز کہاں سے کروں”۔
مقامی برادری کے رہنماءیُو مئیے نِنگ کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے آبائی علاقے میں رہنے کا حق حاصل ہے۔
یُو مئیے نینگ” ہم اس زمین کو استعمال کرنے پر حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں، آئین کے مطابق حکومت کو دیہاتیوں کو ان کی زمین سے نکالنے کا کوئی حق حاصل نہیں”۔
برما میں نئی سیاسی اصلاحات کے بعد سے بیرون ملک سے سرمایہ کاری بڑی رہی ہے، جس کے نتیجے میں زمینوں پر قبضوں کے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں۔ کاشتکار اور دیہاتیوں کو حکومتی منصوبوں کیلئے گھربار چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جبکہ موجود قوانین کے تحت یہ بھی واضح نہیں کہ زمینوں کا مالک کون ہے، کیونکہ سرکاری طور پر تو انہیں حکومت کی ملکیت سمجھا جاتا ہے۔32 سالہ تِن وِن اونگ کا کہنا ہے کہ حکومت نے صنعتی منصوبے کیلئے انہیں ان کی زمینوں سے نکال پھینکا ہے۔
تِن وِن اونگ” جب حکومت نے تھُوانا میں ہماری زمین کو قبضے میں لیا تو میں نے یہاں آکر زمین کا یہ ٹکڑا خریدا، میرا خاندان بہت بڑا ہے اور ہمارا روزگار کاشتکاری سے وابستہ ہے۔ میرے والد کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، انکا کہنا تھا کہ ہم کاشتکار نہیں بلکہ غدار ہیں۔ ہمیں زبردستی کاغذات پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا اور ہمیں زمین سے نکال دیا گیا۔ حکومت نے ہمیں زرتلافی کے طور پر صرف بیس ڈالرز دیئے، جبکہ اس کی مالیت لاکھوں ڈالرز کی ہے۔ اس وقت مجبوراً ہم وہ رقم لینے پر مجبور ہوئے کیونکہ ہم مزید کسی اور مشکل میں نہیں پھنسنا چاہتے تھے”۔
صنعتی زون کا یہ منصوبہ جنوب مشرقی ایشیاءکا سب سے بڑا صنعتی زون قرار دیا جارہا ہے، جاپانی حکومت کی جانب سے اس منصوبے کی پرزور حمایت کی جارہی ہے، اور اس نے برما پر اپنا آدھا قرضہ بھی معاف کرنے اور انتہائی کم شرح سود پر مزید قرضہ دینے کی پیشکش کی ہے۔
حال ہی میں برما کے چیمبر آف کامرس اور جاپانی کمپنی کے ایک گروپ نے ان متاثرہ افراد سے مذاکرات کئے، یُو سیٹ اونگ برمی چیمبر سے تعلق رکھتے ہیں۔
یُو سیٹ اونگ “ دو سال قبل جب میں وزیر تھا تو میں اس علاقے میں تفتیش کیلئے آیا تھا، یہاں کچھ ایسے لوگ تھے جن کے پاس اپنی ملکیت ثابت کرنے کے لئے دستاویزات موجود نہیں تھے، ہم نے ان سے معلومات اکھٹی کیں اور موجودہ قوانین کے تحت ان پر غور کیا۔ خصوصی اقتصادی زون سے ملکی معیشت بہتر ہوگی، ہم پوری کوشش کریں گے کہ اس منصوبے کیلئے یہاں کے رہائشیوں کی زندگیوں کو خراب نہ کریں”۔
تاہم انھوں نے معاوضہ ادا کرنے کا وعدہ کرنے سے انکار کردیا۔ اُنچاس سالہ یُو کماکا کہنا ہے کہ وہ اپنے گاﺅں کو کسی صورت نہیں چھوڑیں گے۔
یُو کما” ہم یہاں سے نہیں جائیں گے، یہ ہماری اابائی زمین ہے، ماضی میں بھی ہمیں مختلف زمینوں کی وجہ سے اپنی زمینوں سے ہاتھ دھونا پڑے، اب ہم مزید کوئی قربانی نہیں دیں گے۔ ہم یہاں ہی رہیں گے اور ہم اپنی زمینوں کیلئے حکومت کو ٹیکس ادا کرتے رہیں گے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply