Written by prs.adminMarch 12, 2013
Nepal Campaigns for More Toilets – نیپال میں بیت الخلاءتعمیر کرنے کی مہم
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
ٍ
اقوام متحدہ نے حال ہی میں زیادہ سے زیادہ بیت الخلاءتعمیر کرنے پر نیپال کو سراہا ہے، حالانکہ 1980ءمیں اس جنوبی ایشیائی ملک میں اس کی صرف تین فیصد آبادی کو بیت الخلاءکی سہولت دستیاب تھی۔ تاہم 2011ءسے نیپال میں اس حوالے سے ایک زبردست مہم چلائی جارہی ہے۔
ساٹھ سالہ ہرا بادُھر سُنار ایک گاﺅں سکھار پورکے رہائشی ہیں، یہ گاﺅں دارالحکومت کھٹمنڈو سے ایک سو کلومیٹر دور واقع ہے۔ انہیں زبردستی ایک بیت الخلاءتعمیر کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
ہرا بادُھر سُنار” گاﺅں کے سیکرٹری کا کہنا تھا کہ اگر میں نے ٹوائلٹ تعمیر نہ کیا تو مجھے گرفتار کرلیا جائے گا۔ انہیں اس بات کی پروا نہیں تھی کہ میں اس کا بوجھ اٹھا سکتا ہوں یا نہیں”۔
ہرا بادُھر سُنارایک کچے گھر میں اپنی بیوی کالیکہ کے ساتھ رہتے ہیں۔
کالیکہ” دو ماہ قبل ہمارے گاﺅں میں ایک اجلاس ہوا، جس میں گاﺅں کے سیکرٹری نے ہمیں بتایا کہ ہر خاندان کو کم از کم ایک ٹوائلٹ تعمیر کرنا ہوگا۔ میرا بیٹا دوسرے قصبے میں رہتا ہے اور اسے ہماری کوئی پروا نہیں۔ ہمارے لئے ٹوائلٹ کی تعمیر کرانا مشکل تھا کیونکہ ہمارے پاس پیسے نہیں تھے”۔
اس گاﺅں میں چھ سو خاندان مقیم ہیں، مگر ایک تہائی سے کم افراد کو اپنے گھروں میں بیت الخلاءکی سہولت دستیاب ہے، اور پھر پولیس وہاں پہنچ گئی۔
کالیکہ”پولیس اہلکاروں نے کہا کہ آخر تمہارے گھر میں ٹوائلٹ کیوں نہیں؟ میں نے انہیں اپنے مسائل بتائے اور کہا کہ ہم اسے تعمیر کرنے کی کوشش کررہے ہیں، تاہم انکا کہنا تھا کہ اگر بیت الخلاءجلد تعمیر نہ ہوا تو وہ ہمیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیں گے”۔
نیپال 2017ءتک کھلے عام رفع حاجت کی عادت ختم کرنے کے لئے پرعزم ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں دو سال پہلے ایک ملک گیر مہم شروع کی گئی، اور اب تک چھ سو دیہات کو اس بری عادت سے پاک قرار دیا جاچکا ہے،اور اب سکھار پور گاﺅں کی باری ہے۔
مقامی حکام اس مہم کو بہت سنجیدگی سے آگے بڑھا رہے ہیں، ہومناتھ دَہال، گاﺅں کی ترقیاتی کمیٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔
ہومناتھ دَہال” ہم نے انہیں کہا ہے کہ اگر انھوں نے بیت الخلاءتعمیر نہ کیا تو ہم انہیں زمین فروخت کرنے کی اجازت دینے یا شناختی کارڈ اور پاسپورٹس وغیرہ کیلئے ریفرنس فراہم نہیں کریں گے۔ ہم نے پولیس اس مہم کیلئے مدد کی درخواست کی ہے، پولیس کی جانب سے گاﺅں کے دوروں کے بعد اب تک یہاں سو سے زائد ٹوائلٹس تعمیر ہوچکے ہیں”۔
گرفتاری کے ڈر کی وجہ سے بہت سے افراد نے ادھار رقم لیکر بیت الخلاءتعمیر کیا۔
“میں نے اپنے پڑوسی سے دو سو ڈالرز ادھارلئے، اس رقم کی ادائیگی کیلئے مجھے اپنی زمین کا کچھ حصہ فروخت کرنا پڑا، میرے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا تھا”۔
سِتالادیوی نامی اسکول میں اساتذہ طالبعلموں سے پوچھ رہے ہیں کہ ان میں سے کس کے گھر میں بیت الخلاءموجود ہے، جس پر وہاں موجود تمام بچوں نے ہاتھ کھڑے کردیئے۔ ہیلتھ ٹیچر رامیش چاپائیگی کا کہنا ہے کہ ہمارا اسکول حکومتی مہم میں مدد کرنے کا خواہشمند ہے۔
رامیش چاپائیگی” اسکول کی اسمبلی کے دوران ہم ان بچوں کی علیحدہ قطار بناتے ہیں جن کے گھروں میں ٹوائلٹ موجود ہے، ہم تالیاں بجا کر انکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اس سے دیگر بچے متاثر ہوتے ہیں اور وہ اپنے والدین کو بیت الخلاءکی تعمیر کیلئے مجبور کرتے ہیں”۔
اب اسکول نے ایک اور قدم بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
رامیش چاپائیگی” فائنل امتحانات میں ان طالبعلموں کو اچھے نمبر دیئے جائیں گے جن کے گھروں میں بیت الخلاءہوگا اور وہ اسے استعمال کرتے ہوں گے، تاہم ان بچوں کو اوسط نمبرز دیئے جائیں گے جن کے گھر میں ٹوائلٹ بھی ہو اور وہ اسے استعمال نہ کرتے ہوں، یا جن بچوں کے گھروں میں سرے سے بیت الخلاءہی موجود نہ ہوگا انہیں کوئی نمبر نہیں دیا جائے گا”۔
مقامی این جی اوز کی مدد سے غریب خاندان اپنے گھروں میں بیت الخلاءتعمیر کررہے ہیں۔ سُشِیل گوتم ایک این جی او سیوک نیپال سے تعلق رکھتے ہیں۔
سُشِیل گوتم” حال ہی میں ایک گاﺅں کو رفع حاجت کی عادت سے پاک قرار دیا گیا، وہاں کے پندرہ غریب خاندان بیت الخلاءتعمیر کرانے کی سکت نہیں رکھتے تھے، ہم نے انہیں شروع میں ساٹھ ڈالرز دیئے، اگرچہ ٹوائلٹ کی تعمیر کیلئے انہیں 125 ڈالرز مزید خرچ کرنا پڑے، مگر کم از کم انہیں اس مقصد کیلئے مدد تو فراہم کی گئی”۔
کچھ این جی اوز ان غریب خاندانوں کو سیمنٹ، پلاسٹک کے پائپس اور دیگر اشیاءفراہم کرتے ہیں، تاہم پچاس سالہ مَدَن تامنگ تاحال مدد کے منتظر ہیں۔
دَن تامنگ” میرے پاس اپنے خاندان کو کھلانے کیلئے پیسے نہیں، آخر میں ٹوائلٹ کیسے تعمیر کروں؟ میری اہلیہ بیمار ہے اور حال ہی میں اسے ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ میں اپنی تمام آمدنی اپنی بیوی پر خرچ کردیتا ہوں، جس کے بعد میرے پاس پیسے ہی نہیں بچتے”۔
ایک دوسرے گاﺅں میں لوگ رقص کرنے اور نعرے لگارہے ہیں، کیونکہ انہیں رفع حاجت سے پاک گاﺅں قرار دیدیا گیا ہے، تاہم اب بھی ہزاروں افراد کو ٹوائلٹس کی ضرورت ہے۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply