Written by prs.adminJune 20, 2012
(Burma Western State Under Emergency) برمی مغربی ریاست میں ایمرجنسی نافذ
Asia Calling | ایشیا کالنگ . Politics Article
(Burma Western State Under Emergency) برمی مغربی ریاست میں ایمرجنسی نافذ
برما کے مغربی حصوں میں گزشتہ دنوں میں فرقہ وارانہ فسادات میں متعدد افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں گھر تباہ ہوگئے۔ یہ جھڑپیں مقامی مسلمان قبیلے Rohingyas اور دوسرے قبیلے Rakhine کے درمیان ہوئیں۔
فرقہ وارانہ فسادات کے آغاز کے بعد برمی صدر Thein Sein نے سرکاری ٹی وی پر اہم خطاب کیا
Rakhine state (male) Thein Sein میں پیش آنے والے موجودہ واقعات کا جائزہ لیا جارہا ہے، جس سے اندازہ ہورہا ہے کہ امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ مذہب اور نسل کے نام پر ہونے والا احتجاج ہے، جس کے باعث ایک دوسرے سے نفرت بڑھی ہے اور ایک دوسرے سے انتقام لینے کی خواہش پیدا ہوئی۔ یہ صورتحال Rakhine state سے نکل کر ملک کے دیگر حصوں میں بھی پیدا ہوسکتی ہے”۔
برمی صدر نے متاثرہ علاقوں میں کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا، جبکہ پولیس کی ناکامی کو دیکھتے ہوئے امن و امان کی صورتحال سنبھالنے کی ذمہ داری فوج کے حوالے کردی گئی۔
یہ جھڑپیں مئی میں ایک بدھ خاتون سے مبینہ زیادتی کی خبر کے بعد شروع ہوئیں، جس کی ذمہ داری تین مسلمانوں پر عائد کی گئی اور انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے بعد نامعلوم شرپسندوں نے دس مسلمانوں کو تشدد کرکے قتل کردیا، جس کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور مسلمانوں اور بدھ قبائل میں جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ برما میں حال ہی میں پہلی بار جمہوری اصلاحات کا عمل شروع ہوا ہے، مگر موجودہ صورتحال نے متاثرہ علاقوں کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں میں بھی اشتعال پیدا کردیا ہے۔ متعدد مبصرین نے موجودہ صورتحال کو برمی جمہوریت کیلئے خطرہ قرار دیا ہے۔برما کی جمہوریت پسند رہنماءآنگ سان سوچی نے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کریں۔
آنگ سان سوچی(female) “ملک کے ہر شہری کا تحفظ یقینی بنایا جانا چاہئے۔ ملکی وقار کا انحصار ہی شہریوں کے تحفظ اور امن سے ہوتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ ہمارے ملک میں سب لوگ نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکر امن سے زندگی بسر کریں۔میں سب شہریوں پر زور دیتی ہوں کہ وہ قانون کا احترام کریں”۔
Rakhine state کی تاریخ میں پہلی بار اس پیمانے پر پرتشدد واقعات ہوئے ہیں، مگر یہاں نسلی تناﺅ کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق برما میں مسلمانوں کی تعداد آٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے جن میں اکثریت بنگلہ دیش سے ملحق اسی ریاست میں مقیم ہے۔ برمی حکومت ان مسلمانوں کو بنگلہ دیشی تارکین وطن قرار دیتی ہے اور انہیں شہریت کا حق دینے کیلئے تیار نہیں، جبکہ بنگلہ دیش بھی ان مظلوم مسلمانوں کو مہاجرین کی حیثیت دینے کیلئے تیار نہیں۔اس طرح یہ مسلمان دونوں ممالک کے درمیان پھنس کر رہ گئے اور ان کے حقوق کی ضمانت دینے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں۔
برمی دارالحکومت رنگون میں واقع Shwedagon نامی بدھ مندر میں بھکشو اور پانچ سو افراد فرقہ وارانہ فسادات میں ہلاک ہونے والے افراد کیلئے دعا مانگ رہے ہیں۔ All Burma Muslim Association کے ترجمان Wunna Shwe کا کہنا ہے کہ ہم تنازعے کی شدت میں کمی لانے کی کوشش کررہے ہیں۔
male) Wunna Shwe) “ہماری تنظیم تمام گروپس کیساتھ ملکر امن اور استحکام کیلئے کام کررہی ہے۔ ہم حکومتی عہدیداران اور مذہبی گروپس سے رابطہ کررہے ہیں تاکہ اس مسئلے کو حل کیا جاسکے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی مناسب حل نکالا جاسکے”۔
فرقہ وارانہ فسادات کے بعد بیرون ملک مقیم برمی مسلمانوں نے بینکاک اور کوالالمپور میں مظاہرے کئے اور اقوام متحدہ سے صورتحال میں مداخلت کا مطالبہ کیا۔تاہم اقوام متحدہ کو کشیدہ صورتحال کے باعث Rakhine state میں موجود اپنے عملے کو نکالنا پڑا ہے۔ Marty Nesirky اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان ہیں۔
male) Marty Nesirky) “ہم صورتحال کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں، ہمیں تشدد کے واقعات پر شدید تشویش ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ دونوں برادریوں کے درمیان کشیدگی روکنے کیلئے مناسب اقدامات کئے جائیں”۔
برمی حکومت کی جانب سے مسلمانوں کیلئے Rohingya کا لفظ استعمال کرنے کی بجائے انہیں بنگالی کہا جاتا ہے، جبکہ آن لائن فورمز میں Rohingya برادری کو حملہ آور قرار دیا جارہا ہے اور ان پر موجودہ فسادات کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ اپنے ٹی وی خطاب میں صدر Thein Sein نے عوام سے اپیل کی وہ نسلی اور لسانی تقسیم پیدا کرنے والے الفاظ استعمال کرنے سے گریز کریں۔
male)” Thein Sein) میں چاہتا ہوں کہ سب لوگ احساس کریں کہ نسل پرست الفاظ کس طرح ملکی استحکام، جمہوری عمل اور قومی ترقی کو نقصان پہنچا رہے ہیں”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply