Written by prs.adminApril 17, 2012
(Burma Peace Talks Agreement) برمی امن معاہدہ طے
Asia Calling | ایشیا کالنگ . International Article
(Burma rebel talk) برمی امن بات چیت
آنگ سان سوچی کی ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد اب برما میں تاریخی جنگ بندی کا معاہدہ طے پاگیا ہے۔ چند روز قبل مسلح باغی گروپ Karen National Union اور برمی حکومت کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں، جس کے بعد برسوں پرانی خانہ جنگی اختتام پذیر ہوگئی۔
برمی دارالحکومت رنگون میں مقامی صحافیوں اور مبصرین کی موجودگی میں Karen National Union یا کے این یو کے وفد اور حکومتی وزراءنے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کئے۔ اس موقع پر حکومتی مذاکرات کاروں کے سربراہ Aung Min کا کہنا تھاکہ بات چیت اچھے طریقے سے جاری ہے۔
(male) Aung Min “ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب جنگ بندی اور سیاسی مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے۔ مسلح تنازعات ایک ایسا مرض ہے جو 63 برس پہلے ہمارے ملک کو لاحق ہوا تھا، ہر برمی حکومت نے اس مرض کا علاج کرنے کی کوشش کی، تاہم بدقسمتی سے کوئی دوا کام نہ کرسکی۔ ہم کئی کوششوں کے بعد اب نئے عزم سے یہ کام کررہے ہیں، اور ہمیں توقع ہے کہ ہماری دوا سے اس مرض کا خاتمہ کردیا جائے گا، کیونکہ اب ہم سب مذاکرات کی میز پر ہیں اور دوستانہ انداز میں بات چیت کررہے ہیں”۔
Naw Zipporah Sein کے این یو کی سیکرٹری جنرل ہیں، امن معاہدے پر دستخط کے بعد انھوں نے اپنے وفد کے ہمراہ برمی صدر سے بھی ملاقات کی۔
(female) Naw Zipporah Sein “جب ہماری ملاقات صدر سے ہوئی، تو ہم نے محسوس کیا کہ وہ ملک میں امن قائم کرنے کیلئے سنجیدہ ہیں اور وہ اس مقصد کے حصول کیلئے ہر ممکن کوشش کرنا چاہتے ہیں”۔
کے این یو برمی قبیلے Karen کی نمائندگی کرنے والا گروپ ہے، برما کی مجموعی آبادی کا سات فیصد حصہ اس برادری پر مشتمل ہے۔ برما میں دیگر باغی گروپ بھی موجود ہیں، مگر کے این یو سب سے مضبوط اور پرانا گروپ ہے، جسکا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس چودہ ہزار مسلح افراد کی فوج ہے، اور تھائی برما سرحد سمیت ملک کے بیشتر حصے اس کے کنٹرول میں ہیں۔ گزشتہ سال جنوری میں حکومت نے کے این یو کے ایک اور دھڑے سے جنگ بندی کا معاہدہ کیا تھا، تاہم لڑائی جاری رہنے کی وجہ سے وہ ناکام ہوگیا تھا۔ مگر اب نئے معاہدے سے توقع ہے کہ مستقل امن قائم ہوجائے گا۔ دونوں اطراف نے معاہدے میں تیرہ نکات پر اتفاق کیا ہے، جس میں شہریوں کے تحفظ، بے گھر ہونیوالے افراد کی مدد اور آئی ڈی پیز کی گھر واپسی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد Karen افراد نے سرحد پر واقع پناہ گزین کیمپوں میں پناہ لی ہے، جن کی بحالی نو کے حوالے سے Aung Min مجوزہ منصوبے کی تفصیلات بتارہے ہیں۔
(male) Aung Min “آئی ڈی پیز نے اپنے گھر سیکیورٹی نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑے تھے، تو سب سے پہلی چیز ان دیہاتوں میں سیکیورٹی کو بہتر بنانا ہوگا، اگر ایسا ہوگیا تو یہ لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں گے، انہیں سیکیورٹی کی ضمانت دیئے بغیر زبردستی گھر جانے پر مجبو نہیں کیا جاسکتا، اب کچھ لوگ واپس لوٹنا شروع ہوگئے ہیں، جن کی بحالی نو، خوراک کی فراہمی اور روزگار وغیرہ کے ذمہ دار ہم ہوں گے”۔
حکومتی امن وفد کے سنیئر رکن U Soe Thein کا کہنا ہے کہ امن عمل میں کچھ وقت لگ سکتا ہے تاہم اس پر کام جاری رہنا چاہئے۔
(male) U Soe Thein “ہم سب بھائی ہیں، ہماری حکومت امن عمل کو سیاسی مفادات کے حصول کا ذریعہ نہیں بنانا چاہتی، اس خانہ جنگی کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ امن کے قیام کیلئے ہمیں لفاظی کی بجائے سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔اس اجلاس میں موجود لوگ دس یا پندرہ سال تک ہی زندہ رہ سکیں گے، تاہم ہمیں اپنی مستقبل کی نسل کے بارے میں سوچنا ہوگا”۔
تاہم کے این یو اب بھی حکومت کی کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے اور اسے دہشت گرد گروپ کہا جاتا ہے۔ ماضی میں اس گروپ پر متعدد بم دھماکوں کے الزامات بھی عائد ہوئے۔ Naw Zipporah Sein اس بارے میں بات کررہی ہیں۔
(female) Naw Zipporah Sein “یہ حقیقت کہ کے این یو ایک کالعدم گروپ ہے، اس امن عمل کو متاثر کرسکتا ہے، جب ہم نے صدر سے ملاقات کی تو ہم نے یہ مسئلہ بھی اٹھایا، جس پر انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ اس سلسلے میں جلد از جلد اقدام کریں گے”۔
امن مذاکرات میں ملک گیر جنگ بندی کے امکانات پر بھی بات چیت کی جارہی ہے، متعدد دیگر گروپس پہلے ہی حکومت کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدوں پر دستخط کرچکے ہیں۔ برمی صدر U Thein Sein ملک بھر میں امن قائم کرنے کو بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہیں اور اب کے این یو نے برمی شہروں میں اپنے دو دفاتر بھی قائم کئے ہیں، تاہم اس کا صدر دفتر ایک برمی جنگل میں واقع ہے۔
امن معاہدے پر دستخط کے دو روز بعد بھی کے این یو کے وفد نے حزب اختلاف کی رہنماءآنگ سان سوچی سے ان کی رہائشگاہ پر ملاقات کی، جنھوں نے اس معاہدے کو سراہا۔
آنگ سان سوچی(female) “یہ جنگ بندی پہلا مرحلہ اور پہلا قدم ہے۔ قومی امن جنگ بندی کے بغیر ممکن نہیں۔ جب جنگ بندی پر عملدرآمد شروع ہوجائیگا، تو اگلے مرحلے میں ملک میں امن بھی قائم ہوجائیگا”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
Leave a Reply