Written by prs.adminMarch 4, 2013
Afghanistan’s ‘flowering’ media could disappear upon transition-افغان میڈیا
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
افغانستان میں میڈیا کو اب ماضی کے مقابلے میں زیادہ آزادی حاصل ہے، مگر کیا اب وہاں پریس کا آزادی حاصل ہوگئی ہے؟ اسی بارے میں پاکستانی صحافی احمد رشید کا انٹرویو سنتے ہیں
احمد رشید” میڈیا افغانستان میں جمہوری اداروں اور تعلیم کی ترقی کیلئے اہم کردار ادا کررہا ہے، آزاد میڈیا کا تصور ہی تعلیم کی ترقی پر مبنی ہے، اس کے لئے وہ نوجوانوں اور بچوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ اخبار پڑھیں اور ٹی وی دیکھ خبروں کو سمجھیں، کئی دہائیوں کی خانہ جنگی کے بعد اب ٹی وی تفریح کا نمبرون ذریعہ بن چکا ہے۔تاہم مستقبل پر غیریقینی کی صورتحال موجود ہے اور ہمیں نہیں معلوم کہ افغانستان میں کس قسم کی حکومت چل رہی ہے، کیا وہ سنسر کرنا چاہتی ہے؟ کیا طالبان اقتدار میں واپس آرہے ہیں یا انہیں بھی حکومت میں حصہ ملنے والا ہے، یا کچھ اور ہونے والا ہے؟ اور ہوسکتا ہے کہ طالبان اس چیز کو غیراسلامی قرار دیکر اس کی اجازت دینے سے انکار کردیں؟ تو ان سب سوالات نے افغان ٹی وی چینیلز، اخبارات اور جریدوں کو گھیرے میں لیا ہوا ہے”۔
سوال”افغانستان بھر میں پریس کو کس حد تک اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے، جبکہ اس ملک میں جگہ جگہ جاگیرداروں کو غلبہ حاصل ہے؟ کیا صحافیوں کو اپنی مرضی سے کام کرنے کی اجازت ہے؟
احمد رشید” متعدد علاقوں میں یہ بات بالکل ٹھیک ہے، یہاں بہت طاقتور جنگجو سردار موجود ہیں جو صحافیوں کو اپنی پسند کی رپورٹنگ پر مجبور کرتے ہیں، جبکہ ان علاقوں میں اجنبی یا ان کی مرضی کے بغیر صحافی کوئی خبر چھاپ نہیں سکتے۔ متعدد جنگجو سرداروں کے اپنے ٹی وی چینیلز ہیں، بظاہر یہ ترقی محسوس ہوتی ہے مگر اس سے آزادی صحافت متاثر ہورہی ہے، اور اگر 2014ءکے بعد حکومت گرگئی تو ہم دیکھیں گے کہ یہاں جنگجوسرداروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی تعداد بہت کم رہ جائے گی”۔
سوال”ایک دہائی پیچھے جائیں، جب طالبان کو حکومت سے ہٹایا گیا تھا، مجھے یاد ہے کہ ہرات کے دورے کے دوران میں نے لوگوں کو نوٹس بورڈز کے ارگرد جمع دیکھا،ان میں سے بہت سے لوگوں کے برسوں بعد نوٹس بورڈ پر تصاویر اور مضامین کو دیکھا۔ کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگ طالبان کے جانے کے بعد کی صورتحال کو خبروں کے ذریعے جاننا چاہتے تھے؟
احمد رشید” جی ہاں بالکل، طالبان کے دور اقتدار کے دوران افغانستان میں خبروں پر مکمل بلیک آﺅٹ رہا، ٹی وی پر تو پابندی تھی ہی اس کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں صرف ایک ریڈیو کام کررہا تھا جو کہ طالبان کا اپنا چینیل تھا۔ یہاں پریس
کا نام و نشان نہیں تھا، تصاویر کی اشاعت پر پابندی تھی، اسی طرح قرآن مجید یا کسی اور مذہب کی تعلیمات کی وضاحت کی اشاعت پر بھی پابندی عائد تھی”۔
سوال”تو اگر طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے تو آپ کا کیا خیال ہے، کیا وہ دوبارہ میڈیا کو اسی طرح دبانے کی کوشش کریں گے؟
احمد رشید” نہیں مجھے نہیں لگتا کہ اب ایسا ہوگا، میرے خیال میں میڈیا اب کافی طاقتور ہوچکا ہے اور طالبان خود بھی میڈیا کو استعمال کررہے ہیں یہاں تک کہ کابل کا میڈیا بھی طالبان کے مقاصد کا پروپگینڈا کررہا ہے۔ تو میرے خیال میں طالبان اس بات کو سمجھ کر اقدامات کریں گے، تاہم یہ بھی ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ پابندیاں تو عائد کریں گے۔ مثال کے طور پر وہ ان ڈراموں پر پابندی لگاسکتے ہیں جو افغان شہریوں کو بہت پسند ہیں۔ افغان سوپ اوپراز سمیت ترک، پاکستانی اور بھارت ڈرامے لوگوں میں بہت مقبول ہیں، جبکہ طالبان ان کی مخالفت کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ طالبان اقتدار میں آئے تو سوپ اوپراز بہت بڑی جنگ ہوگی”۔
سوال”ایسا تو جب ہی ہوگا جب اتحادی افواج کا انخلاءہوجائے گا، ان کے جانے کے بعد مغربی صحافیوں کی بڑی اکثریت بھی یہاں سے چلی جائے گی، کیا اس وقت افغانستان عالمی میڈیا کی شہہ سرخیوں سے غائب ہوجائے گا؟
احمد رشید” میرے خیال یہ ایک بڑا خدشہ ہے، ایسا 1989ءمیں بھی سوویت یونین کے انخلاءکے بعد بھی ہوا تھا، میرا مطلب ہے کہ اس وقت عملی طور پر کوئی بھی افغانستان کے اندر سیاسی عمل آگے بڑھانے کے لئے سنجیدہ نہیں تھا، یہ بہت بڑا خدشہ ہے، میرے خیال یہ بہت ضروری ہے کہ عالمی میڈیا یہاں کی صورتحال پر نظر رکھے، کیونکہ یہ خطہ عدم استحکام کا شکار ہے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply