Written by prs.adminMay 23, 2012
(Will a Minimum Wage Bankrupt Malaysia?) کم از کم تنخواہوں سے ملائیشیاءکے دیوالیہ ہونے کا خطرہ؟
Asia Calling | ایشیا کالنگ . Business Article
تاریخ میں پہلی بار ملائیشیاءمیں کم از کم تنخواہوں کی حد مقرر کردی گئی ہے، جس سے 32 لاکھ مزدوروں کو فائدہ ہوگا۔ مزدوروں میں اس اعلان پر جشن منایا جا رہا ہے، تاہم صنعتکار حکومتی اعلان سے ناخوش ہیں۔
تیس سال سے زائد عمر کی Jenny Fransesca مشرقی ملائیشین شہر Sarawak کے ایک ہوٹل میں کل وقتی ملازمت کے باوجود اپنے گھر کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر تھیں، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے فارغ اوقات میں وکالت کی تعلیم حاصل کی اور اب وہ ایک اچھی ملازمت کررہی ہیں، انکا کہنا ہے کہ غیر تربیت یافتہ افراد کے لئے حالات زیادہ اچھے نہیں۔
(female) Jenny Fransesca “اگر آپ غیر تربیت یافتہ مزدور ہیں، تو آپ کو ملنے والی تنخواہ بہت کم ہوگی، چاہے آپ کسی بڑے فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں ہی کام کیوں نہ کررہے ہوں، آپ کو ملائیشیاءکی کرنسی میں فی گھنٹہ تین ringgit ہی ادا کئے جاتے ہیں، جو کہ ماہانہ چار سو ringgit بنتے ہیں، بیشتر خاندانوں کے اخراجات کیلئے یہ آمدنی ناکافی ہے۔یہ چند برس پہلے کی بات ہے، مگر اب بھی صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، بلکہ اب تو کمپنیاں غیرملکی مزدوروں کو کم اجرت پر بھرتی کرنے لگی ہیں”۔
مگر اب حالات میں تبدیلی آئے گی، کیونکہ گزشتہ دنوں وزیراعظم نجیب رزاق نے اعلان کیا تھا کہ ملائیشیاءمیں کم از کم تنخواہیں 270 سے 300 امریکی ڈالرز تک ہوں گی۔ ابھی کم از کم تنخواہ کے اطلاق کیلئے کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا، مگر جب بھی ایسا ہوا تو بیشتر کمپنیوں کو اپنے ملازمین کو چھ ماہ کے واجبات ادا کرنے ہوں گے، اس قانون کا اطلاق حکومتی اور نجی دو نو ں اداروں پر ہوگا۔ اس خبر نے چند حلقوں کو پریشان کردیا ہے، کیونکہ انکا ماننا ہے کہ تنخواہیں بڑھانے پر لاکھوں افراد کو ملازمتوں سے فارغ بھی کیا جاسکتا ہے۔ Shamsuddin Bardan، Malaysian Employers Federation کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ بتارہے ہیں کہ اس فیصلے سے چھوٹی کمپنیوں کو کن مشکلات کا سامنا ہوگا۔
شمس الدین(male) “ملائیشیاءمیں بیشتر کمپنیاں اپنی مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار نہیں رکھتیں، ان کے صارفین ہی مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرتے ہیں۔ یہ کمپنیاں اضافی اخراجات کا بار اپنے صارفین پر نہیں ڈال سکتیں، جبکہ ان کا شرح منافع بھی زیادہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کمپنیوں کیلئے تنخواہوں میں اسی فیصد اضافہ بہت بڑا چیلنج ثابت ہوگا”۔
شمس الدین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ تنخواہوں میں اضافہ ملائشین عوام کیلئے فائدہ مند ہے، تاہم انکے خیال میں کمپنی مالکان کو اس پالیسی پر عملدرآمد کیلئے زیادہ وقت دیا جانا چاہئے۔
شمس الدین(male) “اگر حکومت اس پالیسی پرعملدرآمد یقینی بنانے کیلئے کمپنی مالکان کو تین سال کا وقت دے، تو وہ پہلے سال تیس فیصد اضافہ کرسکتے ہیں، دوسرے سال بھی تیس فیصد جبکہ تیسرے سال یہ اضافہ حکومتی اعلان کے مطابق کیا جاسکتا ہے، تاہم مجھے نہیں لگتا کہ اس قسم کی تجویز کو حکومت قبول کرے گی”۔
ملائیشین ٹریڈ یونین کانگریس یا ایم ٹی یو سی کم از کم تنخواہوں کی شرح مقرر کرنے کیلئے طویل عرصے سے جدوجہد میں مصروف ہے، یہ یونین چار سو ڈالر ماہانہ کو ملازمین کے لئے مناسب معاوضہ تصور کرتی ہے، تاہم وہ موجودہ اعلان کو ایک مثبت پیشرفت قرار دیتی ہے۔G. Rajasekaran ایم ٹی یو سی کے سابق سیکرٹری جنرل ہیں۔
” (male) G. Rajasekaranیہ بحث گزشتہ دو برس سے جاری ہے، تو کمپنی مالکان کو اس صورتحال کا پہلے ہی اندازہ تھا، اب یہ کہنا کہ اعلان کے بعد مزید دو یا تین سال دیئے جائیں تو یہ کوئی منصفانہ درخواست نہیں۔اگر کمپنیاں اور ان کے مالکان کم ازکم تنخواہ ادا کرنے سے قاصر ہیں، تو وہ اپنے اداروں کو بند کردیں۔ انہیں صرف اپنے کاروبار، منافع اور ملازمین کے استحصال کے بارے میں ہی نہیں سوچنا چاہئے۔ہمیں یقین ہے کہ تنخواہوں میں اضافے سے زیادہ سے زیادہ مقامی افراد ملازمتوں کے حصول کی کوشش کریں گے، جس سے غیر ملکی ورکرز پر ہمارا انحصار کم ہوگا”۔
متعدد افراد کا ماننا ہے کہ تنخواہوں میں اضافے کا فیصلہ انتخابی ہتھکنڈہ ہے، کیونکہ رواں سال کے آخر میں ملائیشیاءمیں عام انتخابات ہورہے ہیں۔ پروفیسر Jayapalan Kasipillai، Monash یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔
(male) Jayapalan Kasipillai “کم از کم تنخواہوں کی پالیسی سے ملک میں بے روزگاری کی شرح نہیں بڑھے گی،کیونکہ ہمیں تو پہلے ہی افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے، جبکہ یہ فیصلہ کمپنی مالکان کیلئے بھی فائدہ مند ثابت ہوگا۔ مثال کے طور پر اس پالیسی کے تحت ملازمین کی تعطیلات کم ہوں گی، جبکہ انہیں طبی سہولیات فراہم نہیں کی جائیں گی، اور ان کے کام کا دورانیہ بڑھایا جائے گا۔جہاں تک بات کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے کی ہے،تو مجھے نہیں لگتا کہ ایسا کچھ ہوگا، کیونکہ ملائیشیاءکئی اجناس جیسے پیٹرولیم مصنوعات، خوردنی تیل اور دیگر پر اجارہ داری قائم کئے ہوئے ہے”۔
تاہم وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرکے تعلیم کے شعبے پر توجہ دے۔
(male) Jaya “اگر آپ ایک لاکھ ملازمین کیلئے فنڈز مختص کرکے انہیں تعلیم فراہم کرے تو یہ ان کیلئے زیاہ بہتر ثابت ہوگا، کیونکہ تعلیم یافتہ ہونے پر یہ لوگ مستقبل میں اپنی صلاحیتوں سے زیادہ بہتر استفادہ کرسکیں گے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
Leave a Reply