
Written by prs.adminJune 10, 2013
Weight-loss surgery trending as India deals with rising obesity – بھارت میں موٹاپے سے بچاﺅ کیلئے سرجری کا رجحان عام
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
ایک ایسا ملک جہاں ہر چھ میں سے ایک شخص کم خوراکی کا شکار ہے وہاں موٹاپے میں کمی کیلئے سرجری کا عمل تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ۔
آدیتیا ہنس راج پاٹیل کی عمر 26 سال ہے، اور وہ وزن کم کرانے کیلئے سرجری کرارہے ہیں، تاکہ زندگی کو نیا رخ دے سکیں۔ آدتیہ کو توقع ہے کہ سرجری کے بعد ان کا وزن کم ہوجائے گا اور انہیں درپیش صحت کے مسائل حل ہوجائیں گے۔
آدتیہ”میں بہت زیادہ موٹا ہوں اور جب بھی میں کہیں جاتا ہوں تو لوگ کہتے ہیں وہ دیکھو موٹا شخص آرہا ہے۔ کئی بار مجھے بہت برا اور کئی بار اچھا لگتا تھا، مگر اب کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ میں اپنی شخصیت میں تبدیلی لارہا ہوں۔ میں شوگر اور دل کے دورے کا شکار نہیں بننا چاہتا، اس سرجری سے میرا پورا جسم، ذہنی معیار اور اعتماد سمیت سب کچھ بدل جائے گا”۔
بھارت وزن کم کرانے کی سرجری کیلئے ایک پسندیدہ مقام کی حیثیت سے سامنے آرہا ہے، یہ رجحان متوسط طبقے کے بھارتی شہریوں میں فروغ پارہا ہے۔بھارت میں گزشتہ دہائی کے دوران اس سرجری کا رجحان بڑھا اورڈاکٹر ایتل پیٹرز اس تحریک کے روح رواں ثابت ہوئے۔
ایتل”آٹھ برس قبل جب میں نے اپنی پریکٹس شروع کی، تو میرے پاس آنے والے مریضوں کی اکثریت غیرملکیوں کی تھی، یہ لوگ مشرق وسطیٰ اور امریکہ وغیرہ سے آتے تھے۔ تاہم کچھ وقت گزرنے کے بعد میرے پاس دس سے پندرہ فیصد مریض بھارتی شہری ہوگئے، مگر اب ہم صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی دیکھ رہے ہیں، میں کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت میرے نوے فیصد مریض بھارتی شہری ہیں اور دس فیصد غیرملکی ہیں”۔
بھارت میں موٹاپے سے بیماریاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جس کی وجہ سے اس سرجری کی صنعت بھی عروج پر پہنچ گئی ہے، جبکہ تیزی سے ہونے والی اقتصادی ترقی اور سست طرز زندگی نے بڑے شہروں میں موٹاپے کے شکار افراد کی تعداد بڑھا دی ہے۔ ڈاکٹراُمیش دیشمکھ دہلی کے ایک ہسپتال سے تعلق رکھتے ہیں۔
دیش مکھ”بھارت میں بااثر ہونا غریب ہونے کے مقابلے میں زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔ مغرب میں تو غربت مسئلہ ہوتی ہے، مگر جب سے بھارت ایک امیر ملک بننا شروع ہوا ہے، میں نے دیکھا ہے کہ موٹاپا ایک بڑی وباءبن کر سامنے آیا ہے۔ یہ بدقسمتی ضرور ہے مگر میرے خیال میں اس حوالے سے کام کیا جانا چاہئے”۔
اس وقت ایک اندازے کے مطابق سالانہ دس ہزار ایسے آپریشن ہورہے ہیں اور مزید بیس لاکھ بھارتی شہری ایسا کرانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اس سرجری کے ماہر ڈاکٹر یو گیش گوتمبھی اسے ایک بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔
ڈاکٹر یوگیش “موٹاپا تیزی سے بڑھ رہا ہے اور دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 2025ءمیں موٹے افراد کی تعداد میں موجودہ سطح کے مقابلے میں سترفیصد اضافہ ہوگا۔ یعنی ہر سال پندرہ فیصد کے حساب سے موٹے افراد کی تعداد بڑھے گی”۔
ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنس کی ایک تحقیق کے مطابق ستر فیصد سرجری کرانے کے خواہشمند افراد تعمیراتی صنعت سے تعلق رکھتے ہیں، جبکہ باقی ملازمت پیشہ خواتین ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 87 فیصد سے زائد ایسے آپریشن کرانے والے افراد کی عمریں 52 سال سے کم ہے، جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ کم عمر افراد میں یہ ایک فیشن بن چکا ہے۔ ڈاکٹر پیٹرزاس حوالے سے اظہار خیال کررہے ہیں۔
پیٹرز”میں مریضوں کی عمروں میں فرق دیکھتا ہوں، پچاس سے ساٹھ فیصد افراد کا تعلق کاروباری خاندانوں سے ہوتا ہے، دس سے پندرہ فیصد نوجوان بھی یہاں آتے ہیں، یعنی ایسی لڑکیاں جن کی شادیاں ہونے والی ہوتی ہیں اور لڑکے جو ذیابیطس کا شکار ہوتے ہیں یا اس کے بارے میں جان کر سرجری کرانے آتے ہیں۔ اس وقت بااثر طبقے یا امیرترین کاروباری افراد موٹاپے کا شکار ہورہے ہیں”۔
بھارت میں اس وقت کروڑوں افراد کم خوراکی کا شکار ہیں، مگر ایک حالیہ تحقیق کے مطابق شہری آبادی کا ستر فیصد حصہ موٹاپے کی کیٹیگری میں آتا ہے۔ڈاکٹر گوتم اس صورتحال پر فکرمند ہیں۔
گوتم”موٹاپا ایک وبا ہے اور کسی وبا کو نشتر کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں طبی طور پر مزید کام کرنا ہوگا جس کے بعد ہی کوئی مناسب راستہ نکلے گا”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | |||||
3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 |
10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 |
17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 |
24 | 25 | 26 | 27 | 28 |