Wanted: ‘Warriors’ to save Philippine’s Rice Terraces فلپائنی کے رائس ٹیرسز کو بچانے کیلئے جنگجوﺅں کی ضرورت
(Philippines rice terraces) فلپائنی رائس ٹیرس
کسی بھی فلپائنی شہری سے دنیا کے عجائب کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ انتہائی فخریہ انداز میں Rice Terraces نامی مقام کا نام لے گا۔فلپائن کے جنوب میں سطح سمندر سے پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر ہاتھوں سے تیار کردہ اس انوکھے مقام کو مقامی سطح پر دنیا کا 8 واں عجوبہ بھی کہا جاتا ہے، تاہم اس جگہ کو سیلاب، قحط سالی، زمین بریدگی اور دیگر وجوہات کی بناءپر خطرات لاحق ہیں۔
ہم لوگ اس وقت Banaue Viewpoint نامی پہاڑی کی چوٹی پر کھڑے ہیں، جو اس علاقے کا بلند ترین مقام ہے۔ یہاں سے ہمیں پہاڑی پر بنائے گئے چبوتروں یا terraces کا واضح نظارہ نظر آرہا ہے۔Hygelac Cayong ہمارے گائیڈ ہیں۔
male) Hygelac Cayong)یہ چبوترے ہمارے بزرگوں نے تعمیر کئے تھے، اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ چبوترے ایک سیڑھی کی طرح پہاڑی سے نیچے سے اوپر کی جانب جا رہے ہیں، اسی وجہ سے یہ ایسی سیڑھی لگتی ہے جو جنت کی طرف جارہی ہو”۔
وہ مزید بتارہے ہیں۔
Banaue”(male) Hygelac Cayongکے مکمل رقبے کا چالیس فیصد حصہ چاول کے کھیتوں سے ڈھکا ہوا ہے، باقی حصہ جنگل پر محیط ہے، جبکہ کچھ جگہوں پر لوگ آباد ہیں”۔
گزشتہ برس کے حکومتی بیان کے مطابق ان terraces کے نصف حصے کی بحالی نو کی ضرورت ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں ایک معروف فوٹوگرافر John Chua نے ان چبوتروں یا terraces کی تصاویر ویب سائٹس پر شائع کیں، جس میں تباہ شدہ کھیتوں، ناقص نظام آبپاشی اور منہدم دیواریں دکھائی گئی تھیں۔ ان تصاویر نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی تھی۔John Chua نے اس حوالے سے ایک مہم بھی شروع کی جس میں اب تک ہزاروں سیاح شرکت کرچکے ہیں۔ یہ ایک رضاکارانہ پروگرام ہے، جس کے تحت سیاحوں اور مقامی افراد سے علاقے کی تعمیر نو کیلئے مدد مانگی جارہی ہے۔
Hygelac Cayong بتارہے ہیں کہ وہ کس طرح پتھر کی دیواریں تعمیر کررہے ہیں۔
male) Hygelac Cayong)” ہم نے تمام پتھروں کو جمع کرکے انہیں ایک جگہ کھڑا کردیا۔ جس کے بعد ماہر افراد نے انہیں صحیح جگہ پر لگادیا”۔
تاہم صرف اس قسم کی تباہی ہی واحد خطرہ نہیں، سب سے بڑا خطرہ مقامی افراد کی جانب سے کاشتکاری کا کام ترک کرنا ہے، کیونکہ نوجوان نسل تعلیم حاصل کرنے کے بعد بڑے شہروں میں ملازمت کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اور یہ بات تو واضح ہے کہ کاشتکاروں کے بغیر ان چبوتروں کی دیکھ بھال ممکن نہیں ہوگی۔چالیس سال سے زائد عمر کے Samuel Abig ایک مقامی کاشتکار ہیں
male) Samuel Abig)” جب میں بچہ تھا تو مجھے یاد ہے کہ پورا علاقہ کتنا خوبصورت تھا، لوگوں کو اچھا روزگار حاصل تھا، مگر کافی سال بعد بہت سی زمینیں خالی ہوگئیں، کیونکہ نوجوان افراد تعلیم کے لئے اس جگہ کو چھوڑ کر چلے گئے۔ بہت سی جگہ پر عمر زیادہ ہونے کے باعث بھی کاشتکاروں کیلئے کام کرنا ممکن نہیں رہا”۔
ماحولیاتی افسران نے مقامی کاشتکاروں کے جانے کے مسئلے پر قابو پانے کیلئے حکومت کو ان Terraces کی بحالی کیلئے دیگر علاقوں سے کسان لانے کی تجویز دی ہے۔ Antonio Gayumma اس علاقے کے بلدیاتی انجنئیر ہیں۔
male) Antonio Gayumma )”بہت سی جگہوں پر ہم مالکان کو جانے سے روک رہے ہیں، تاہم اگر وہ ایسا نہیں چاہتے، تو مقامی حکومت ان کو ملکیت میں لینے کیلئے تیار ہے۔ جہاں پر حاصل ہونیوالی پیداوار کا پچاس فیصد حصہ مالکان کو دیا جائیگا، جبکہ باقی پیداوار حکومت کے پاس چلی جائیگی۔ ہم نے نظام تیار کرلیا ہے اور اس کو عملی شکل دینے کا کام جاری ہے”۔
دیکھا جائے تو شہری گروپس، سیاح اور حکومت سب ملکر بحالی نو کا کام کررہے ہیں، ابتدائی طور پر مرکزی حکومت نے پانچ لاکھ ڈالرز کا فنڈز تعمیر ومرمت کے لئے مختص کیا ہے، جبکہ مقامی حکومت سے یونیسکو سے بھی فنڈز لینے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
بائیس سالہ Prue Earl Bayungan کا خاندان بھی چاول کے ایک کھیت کا مالک ہے۔
female) Prue Earl Bayungan )”میں ان چبوتروں کو اب پہلے سے بھی زیادہ سراہتی ہوں، جب میں کالج میں زیرتعلیم تھی تو میرے دوست مجھے اس حیرت انگیز مقام کی رہائشی ہونے کی وجہ سے جانتے تھے، اور مجھے خود پر فخر محسوس ہوتا تھا۔ اب میں تعلیم مکمل کرکے اپنے آبائی علاقے میں واپس آگئی ہوں ، میرے آباءواجداد نے سخت محنت کرکے اس منفرد
عجوبے کو تعمیر کیا تھا، میںاپنے چھوٹے سے فارم کو برقرار رکھنا چاہتی ہوں اور میری خواہش ہے کہ آئندہ نسل بھی اس عجوبے کو اسی شکل میں بحال رکھے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | |||||
3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 |
10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 |
17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 |
24 | 25 | 26 | 27 | 28 |
Leave a Reply