Torn between two cultures: Afghans in Europe – یورپ میں افغان شہری دو ثقافتوں میں بٹے ہوئے
افغانستان سے بڑی تعداد میں بین الاقوامی افواج کا انخلاءاگلے کے اختتام تک مکمل ہونے کا امکان ہے، تاہم طالبان کے حملے بھی زیادہ بڑھ گئے ہیں، جس کی وجہ سے متعدد افغان شہریوں کو ڈر ہے کہ غیرملکی فوج کے انخلاءکے بعد طالبان ایک بار پھر اقتدار پر قابض نہ ہوجائیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اپنا وطن چھوڑ کر بیرون ملک بہتر مستقبل کی تلاش کیلئے جارہے ہیں،جرمنی میں مقیم ایسے ہی افغان تارکین وطن کے بارے میں جانتے ہیں آج کی رپورٹ میں
پچیس سالہ وسلت حسرت ناظمی گزشتہ بیس سال سے جرمنی میں مقیم ہیں، ان کے والدین نے 90ءکی دہائی میں خانہ جنگی کے بعد افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا، اب وہ جرمن میڈیا میں ایک معروف صحافی کی حیثیت سے کام کررہی ہیں، انکا کہنا ہے کہ وہ یورپ میں اپنے آبائی وطن کے تارکین کا اثر بڑھنے کی شاہد ہیں۔
ناظمی”ہماری پہلی نسل اپنا آبائی گھر چھوڑ کر یہاں آئے اور اس بات کو فراموش کردیا کہ وہ وہاں دستیاب تمام مواقع اور احترام بھی چھوڑ آئے ہیں۔ انھوں نے یہ سب سیکیورٹی صورتحال کے باعث چھوڑا، پھر نوجوان نسل پلی بڑھی، جو میرے خیال میں جرمن اور افغان کلچر کے درمیان پھنس کر رہ گئے ہیں، وہ ان دونوں کے درمیان راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں، اب وہ نہ تو افغانی ہیں اور نہ ہی جرمن”۔
وسلت کے والدین تعلیم یافتہ تھے اور خوش قسمت بھی کہ قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے میں کامیاب رہے، مگر بڑی تعداد میں افغان افراد غیرقانونی طور پر پاکستان، ایران، ترکی اور یونان سے ہوتے ہوئے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
چوبیس سالہبریالائی غیرقانونی تارکین وطن کی ایک کلاسیک مثال ہیں، وہ چھ برس سے سیاسی پناہ کے خواہشمندوں کے لئے قائم مرکز میں مقیم ہیں۔وہ طویل عرصے سے اپنی درخواست کی منظوری کا انتظار کررہے ہیں۔
بر یلائی”میں ہر شب نیند کی تین گولیاں کھا کر ہی سو پاتا ہوں، اگر مجھے پھر بھی نیند نہ آئے تو پھر میں اینٹی ڈپریسینٹ گولیاں لیتا ہوں، یہ یورپ کی زندگی ہے، اپنے وطن میں مجھے یاد نہیں کہ میں نے کبھی دردکش ادویات بھی استعمال کی ہوں، مگر یہاں تو میں یہ گولیاں کھا کر ہی زندہ ہوں”۔
ایک اندازے کے مطابق صرف جرمنی میں ہی ایک لاکھ سے زائد افغان افراد موجود ہیں، افغان برادری ہر سال شاعری اور موسیقی کے فیسٹولز کا انعقاد کرکے ایک دوسرے سے رابطے میں رہتی ہے، جبکہ اس طرح وہ اپنی نوجوان نسل میں اپنی ثقافت بھی متعارف کرانے کی کوشش کرتی ہے۔
مگر اپنے وطن سے ہزاروں میل دور ان نوجوانوں کے لئے اپنی شناخت کو برقرار رکھنا کافی مشکل ہے، متعدد افغان نوجوان مغربی ثقافت کو قبول کرچکے ہیں اور وہ اپنی مادری زبان بھی نہیں بولتے، لسانی ماہر پیخاورے شنواری باقاعدگی سے جرمنی میں افغان افراد کیلئے پشتو زبان کی کلاسز کا انعقاد کرتے ہیں، مگر آج کوئی بھی ان کی کلاس میں شرکت کیلئے نہیں آیا۔
شنواری”عظیم پشتو شاعر خوشحال خان نے ایک بار کہا تھا کہ پشتون ایک سخت پتھروں کی دیوار جیسے ہیں، جسے آپ جتنا بھی سیدھا کرنے کی کوشش کریں، مگر افغانیوں کیلئے مختلف کام کرنا آسان نہیں۔ میں والدین سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو مفت پشتو کلاسز میں بھیجں، مگر وہ اسے سنجیدہ نہیں لیتے، مگر میں ہار ماننے کیلئے تیار نہیں”۔
کرکٹ کے میدان میں محمد اسد واحد افغان شہری ہیں جنھیں جرمن کرکٹ ٹیم کیلئے منتخب کرلیا گیا ہے، اب وہ بیرون ملک موجود متعدد افغان نوجوانوں کیلئے مثال بن گئے ہیں۔
اسد”متعدد افغان مجھ سے متاثر ہیں اور انھوں نے کرکٹ کھیلنا شروع کرتے ہوئے اپنے کلب قائم کردیئے ہیں، میں ابھی بھی ہائی اسکول میں زیرتعلیم ہوں اور میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں”۔
انتیس سالہ رحیم اللہ فقیر گزشتہ چھ سال سے جرمنی میں مقیم ہیں، وہ برقی مصنوعات فروخت کرتے ہیں اور انہیں اپنا وطن بہت یاد آتا ہے۔
فقیر”آبائی وطن ہی اصل وطن ہوتا ہے، آپ یہاں اپنی زندگی نہیں گزار سکتے، چاہے آپ دنیا کے سب سے بہتر ملک میں ہی کیوں نہ رہ رہے ہوں، مگر اب ہم یہاں موجود ہیں اور ہمیں یہاں کے تمام ثقافتی اور سماجی چیلنجز کا سامنا کرنا ہے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | |||||
3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 |
10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 |
17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 |
24 | 25 | 26 | 27 | 28 |