Written by prs.adminFebruary 13, 2014
The City of Football Makers in Pakistanفٹبال کا دارالحکومت سیالکوٹ
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
ہوسکتا ہے کہ آپ نے سیالکوٹ شہر کے بارے میں کچھ زیادہ نہ سنا ہو، مگر اسکی ایک چیز پوری دنیا میں مشہور ہے، وہ ہے فٹبال، اس شہر مین سالانہ چار کروڑ فٹبال تیار کئے جاتے ہیں، جو کہ پوری دنیا کی پیداوار کا 75 فیصد حصہ بنتا ہے۔ رواں سال برازیل میں ہونے والے فٹبال ورلڈکپ کیلئے بھی اس شہر کو بہت بڑے آرڈرز ملے ہیں، تاہم ان فٹبال کارخانوں میں کچھ تلخ حقائق بھی چھپے ہیں، اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
35پینتیس سالہ محمد ادریس اپنی بیساکھیوں کی مدد سے سیالکوٹ شہر کی ایک فیکٹری کی جانب جارہے ہیں، وہ گزشتہ سترہ سال سے فٹبال سینے کا کام کررہے ہیں، جس سے وہ اپنی بیوی اور چھ بچوں پر مشتمل گھرانے کی کفالت کیلئے روزانہ تین سو روپے کمالیتے ہیں۔
ادریس اپنے دیگر تیس ساتھیوں کے ہمراہ کارخانے کے اندر بیٹھے ہوئے ہیں۔
محمد ادریس”کمانے کیلئے مجھے کوئی اور کام نہیں آتا، اگر ہمارے گاﺅں میں یہ فٹبال فیکٹری نہ ہوتی تو میں شہر میں آوارہ گھومتا رہتا یا گلیوں میں بھیک مانگ رہا ہوتا۔ میں اپنے لئے اور اپنے وطن کیلئے یہ کام کرتا ہوں، تاکہ پاکستان کو دنیا میں عزت حاصل ہوسکے”۔
ادریس کی اہلیہ شازیہ ادریس اور دو بیٹیاں بھی اسی فیکٹری میں کام کرتی ہیں، شازیہ اپنے ساتھ چار سالہ بیٹے کو بھی لیکر آئی ہوئی ہیں، کیونکہ گھر میں اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں۔
شازیہ”ہمارے خاندان کا گزارہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب ہم دونوں کام کریں، ورنہ ہم اپنے اخراجات پورے نہیں کرسکتے، کئی بار میرے شوہر ٹانگ میں درد کی وجہ سے کام نہیں کرپاتے، اس وقت حالات بہت خراب ہوجاتے ہیں”۔
پاکستان سالانہ کروڑوں فٹبال برآمد کرتا ہے اور سیالکوٹ کو فٹبال کی پیداوار کا عالمی دارالحکومت مانا جاتا ہے، جہاں دو ہزار کارخانے یہ کام کررہے ہیں۔شہر کے داخلی راستے پر ہی سنرہے رنگ کا ایک بہت بڑا فٹبال لگایا گیا ہے۔
صفدر ساندل پاکستان ساختہ فٹبال برآمد کرنے والے اولین افراد میں سے ایک ہیں، ان کا ٹینگو فٹبال 1982ءانیس سو بیاسی کے فیفا ورلڈکپ میں استعمال کیا گیا تھا۔
صفدر”موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے میں بہت خوشی سے کہہ سکتا ہوں کہ صرف میری فیکٹری ہی نہیں بلکہ شہر کی تمام فیکٹریوں کی فٹبال پیداوار میں لگ بھگ 35 پینتیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ رواںسال منعقد ہونے والا فٹبال ولڈکپ ہے”۔
اس شہر میں کئی نسلوں کے روزگار کا ذریعہ فٹبال بنانا رہا ہے، اور اب بھی اس شہر کے دو لاکھ افراد یہی کام کررہے ہیں۔59 سالہ غفور حسین لڑکپن سے ہی یہ کام کررہے ہیں۔
غفور”فٹبال کھلاڑیوں کیلئے تفریح کا ذریعہ ہے، جبکہ دیگر افراد کیلئے یہ آمدنی کا ذریعہ ہے، مجھے فٹبال سے محبت ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اگر میں فٹبال نہ بناﺅں تو میرا خاندان کھانا نہیں کھا سکے گا۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے میری جیسی زندگی گزارے”۔
سیالکوٹ میں تیار ہونے والے فٹبال بین الاقوامی برانڈز جیسے ایڈیڈاز،نائیکی اور ری بوک وغیرہ فروخت کرتے ہیں، تاہم 35پینتیس سالہ آٹھ بچوں کی ماں رفعت نصیر کو دن بھر میں دو گیندیں سینے پر صرف سو روپے ہی ملتے ہیں۔
رفعت”جب میری شادی ہوئی تو میں نے فٹبال کو تیار کرنا سیکھنا شروع کیا، میں نے دیکھا کہ خواتین گھروں پر فٹبال سیتی ہیں، میری بنیائی کمزور ہوگئی ، جبکہ میرے کندھوں اور کمر میں درد ہونے لگا، مگر میں اپنے بڑے خاندان کے گزارے کیلئے بدستور کام کررہی ہوں اور میں بہت محنت سے کام کرتی ہوں”۔
ماضی میں بیشتر فٹبال فیکٹریوں میں بچے بھی کام کرتے تھے، تاہم چائلڈ لیبر پر عالمی ردعمل کے بعد سیالکوٹ میں 2007ءسے بچوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں۔لیاقت چوہدری ایک فٹبال فیکٹری کے منیجر ہیں۔
لیاقت”فیکٹریوں میں چائلڈ لیبر پر حکومتی پابندی کے بعد سے فٹبال کی پیداوار کم ہوگئی ہے، اب نئے ورکرز تلاش کرنا مشکل ہوگیا ہے”۔
فیکٹریوں میں تنخواہیں بھی کم ہیں، خواتین ورکرز ہفتہ بھر میں دو ہزار روپے ہی کما پاتی ہیں، جبکہ مردوں کی آمدنی ان سے دوگنا زائد ہے۔ سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے چیئرمین ڈاکٹر سرفراز بشیر کا کہنا ہے کہ صورتحال میں بہتری کیلئے کام کیا جارہا ہے۔
ڈاکٹر سرفراز”ہم اس حوالے سے مسلسل کام کررہے ہیں، اگر برآمد کنندگان کو اپنی پیداوار کی اچھی قیمت ملے، تو وہ ورکرز کی تنخواہوں کو بھی بڑھائے گا”۔
محمد ادریس اور ان کی اہلیہ فیکٹری میں دس گھنٹے کی شفٹ کے بعد گھر واپس جارہے ہیں، شازیہ نے اپنے شوہر کے جوتے اتارے اور رونے لگی۔
شازیہ”میری خواہش ہے کہ مریے بچے اچھی تعلیم حاصل کریں، مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ میں جانتی ہوں کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے اور ہم تعلیم کا خرچہ نہیں اٹھاسکتے، کیونکہ ہم بمشکل انکی خوراک کا انتظام کرپاتے ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ میرے بچوں کی زندگی بھی ہماری جیسی ہوگی اور مجھے یہ معلوم ہے کہ ہماری زندگی کبھی تبدیل نہیں ہوگی”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |