Written by prs.adminJuly 17, 2012
(Taking the Risk on Pakistan’s Catwalks) پاکستان میں کیٹ واک کا رسک
Asia Calling | ایشیا کالنگ . Entertainment Article
پاکستان میں فیشن شوز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔یہاں تک کہ پشاور میں بھی ۔جہاں شدت پسند عناصر کو غلبہ حاصل ہے۔وہاں ہر ماہ کم از کم ایک شو ہوتا ہے۔لیکن خواتین کیلیے وہاں کیٹ واک کرنا آسان نہیں ہے۔
21 سالہ نگینہ نیاز کا روزانہ کا شیڈول بہت تھکا دینے والا ہے ۔دن میں وہ پشاور کے ایک اسپتال میں نرس کی حیثیت سے کام کرتی ہے جبکہ رات کو وہ اپنے ماڈل اور گلوکارہ بننے کے خواب کو تعبیر دینے کی کوشش کرتی ہے۔
(female) Nagina Nayaz “میں ہمیشہ کیلئے پشاور منتقل ہوگئی ہوں۔کیونکہ میرے علاقے میں لوگ خواتین کا گھر سے باہر نکل کر گلوکارہ ،اداکارہ،رقاصہ یا ماڈل وغیرہ بننا پسند نہیں کرتے۔جب مجھے آڈیشن کیلئے بلایا گیاتو مجھے بہت مشکل پیش آئی۔کیونکہ میں اس شہر میں بالکل تنہا تھی اور میرے ساتھ میرا کوئی رشتہ دار نہیں تھا”۔
نگینہ آج کے شو کی تیاری کررہی ہے،جہاں وہ گانا گائے گی اور کیٹ واک کرے گی۔لکی مروت میں اپنے خاندان کو چھوڑ آنے کے بعد سے وہ پشاور میں اکیلی رہتی ہے۔اب صرف اسکی ماں کو پتہ ہے کہ وہ کہاں ہے۔اسکا پتہ اسکے خاندان کے مردوں سے خفیہ رکھا گیا ہے ،جو اپنی بہن کی ماڈلنگ کے بارے میں معلوم ہونے کے بعد شدت پسندانہ ردعمل ظاہر کر سکتے ہیں۔
اس وقت وہ گزشتہ سال اکتوبر میں پشاور کے پہلے فیشن شو میں اپنی پہلی پرفارمنس کو یاد کررہی ہے۔
(female) Nagina Nayaz “میں اسٹیج پر چلتے ہوئے بہت زیادہ خوفزدہ اور پریشان تھی ۔بہت سارے لوگ مجھے دیکھ رہے تھے، اور باہر لوگ شو کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔میں خوفزدہ تھی کہ کہیں شو کے باہر بم دھماکہ نہ ہو جائے۔اگر مجھے نقصان پہنچا تو میں اپنے گھر والوں کو کیا جواب دوں گی۔میرے زیادہ تر عزیز و اقارب کو میرے فیشن کیریر سے متعلق کچھ علم نہیں ہے”۔
آج رات پشاور کےluxorious ہوٹل میں ایک شو ہے۔نگینہ اسٹیج پر گانا گانے کیلیے تیار ہو رہی ہے۔وہ شو شروع ہونے سے قبل کے آخری لمحات بھی ریہرسل کیلیے استعمال کر رہی ہے۔آج رات کا میوزک اور فیشن شو GREOکی جانب سے منعقد کیا گیا ہے۔جو کہ پشتون گلوکاروں، اداکاروں اور ماڈلز کیلیے ایک talent اسکول ہے۔نگینہ وہاں کے طالب علموں میں سے ایک ہے۔ہوٹل کے لان میں 500 سے زائد لوگ جمع ہوئے ہیں۔
آج گلوکاری نگینہ کیلیے ایک کامیابی ہوگی،اور اب وہ اسٹیج پر چلنے کیلیے تیار ہے۔
اس نے اپنے لیے کپڑے خود ڈیزائن کیے ہیں۔ایک لمبا سرخ رنگ کا شوخ لباس، میچنگ اسکارف کےساتھ۔اوروہ نہایت خود اعتمادی کے ساتھ کیٹ واک کرتی ہے۔
بہت سے لوگ جو اسکے خلاف تھے انہیں یہ پسند آیا۔24سالہ یونیورسٹی کا طالبعلم عبدالجبار ہوٹل کے باہر سے گزر رہا ہے، تاہم اسے پتہ ہے کہ اندر شو ہورہا ہے ۔ وہ اس طرح کی سرگرمیوں کوگناہ قرار دیتا ہے۔
(Male) Abdul Jabbar “خواتین کی کیٹ واک اور فیشن شوز ہماری پشتون ثقافت اور مذہب کے خلاف ہیں۔کوئی چاہے ہزاروں دلیلیں ہی کیوں نہ پیش کردے اس عمل کو درست قرار نہیں دلاسکتا۔برائی تو برائی ہے۔جواز پیش کرنے سے یہ عمل صحیح نہیں ہوجائے گا۔یہ ان خاندانوںکیلئے شرمناک امر ہے کہ ان کی لڑکیاں اجنبیوں کے سامنے کیٹ واک کرتے ہوئے اپنے جسم کی نمائش کررہی ہیں۔آپ اسے فیشن شو کہے یا کچھ اور گناہ تو گناہ ہی رہے گا۔میں عسکریت پسندوں کے خلاف ہوں لیکن اگر وہ ایسی تقاریب کو نشانہ بنائیں تو میں انکی حمایت کروں گا۔کیونکہ ایسے شوز طاقت کے استعمال سے روکے جا سکتے ہیں”۔
صائمہ عامر آج کے شو کی آرگنائزر ہیں۔وہ greo talent school کی مالکہ بھی ہیں۔یہ پشاور کا اپنی طرز کا واحد اسکول ہے جسے کوئی خاتون چلا رہی ہے۔انکے مطابق وہ فنون لطیفہ کی صلاحیتیں ثابت کرنے کیلئے پشتون لڑکیوں کو ایک زینہ فراہم کرتی ہیں۔
” (Female) Saima Amir پشتون معاشرے میں موجود انتہاپسند ہمیشہ ماڈلز کے ان کپڑوں پر اعتراض کرتے ہیں۔جو وہ فیشن شوز میں پہنتی ہیں۔لیکن میں ماڈلز کیلیے ثقافتی طور پر قابل قبول ملبوسات ڈیزائن کرتی ہوں۔تاکہ وہ ان پر اعتراض نہ کر سکیں۔نوجوان نسل فیشن اور ماڈلنگ کو پسند کرتی ہے۔اور میں انکی حوصلہ افزائی کی کوشش کرتی ہوں تاکہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کرسکے۔اگر یہ سرگرمیاں ثقافت کے دائرے میں رہ کر ہو تو اس میں کوئی برائی نہیں”۔
اسٹیج سے ہٹ جانے کے بعد نگینہ اس کیرئیر کے بارے میں اپنی سنجیدگی کا اظہار کررہی ہے۔
(Female) Nagina Nayaz “میں ہر رات ملک کی ٹاپ ماڈل یا گلوکارہ بننے کا خواب دیکھتی ہوں، اور میرے بہت سارے پرستار ہیں۔میں اپنے آپ سے کہتی ہوں کہ مجھے امید نہیں چھوڑنی چاہیے۔میں اللہ سے اپنے خواب پورے ہونے کی دعائیں کرتی ہوں۔میں اسکے لیے بہت محنت کرتی ہوں۔میں پیسے لیکر گلوکاری یا کیٹ واک نہیں کرتی بلکہ یہ تو میری زندگی کا مقصد ہے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply