Written by prs.adminMay 11, 2013
Should India Ban Pornography? – بھارت میں عریاں مواد پر پابندی؟
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
بھارت میں حال ہی میں جنسی زیادتیوں کے خوفناک واقعات سامنے آئے ہیں، جس میں سے نصف میں بچوں پر ظلم ہوا۔ اب بھارت میں بحث جاری ہے کہ کیا ان جنسی جرائم میں اضافے کے پیچھے فحاشی تو نہیں۔ اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
جنسی زیادتی کا شکار بننے والی چار سالہ بچی کی ماں اپنی بیٹی کو کھونے کے بعد انصاف کیلئے رو رہی ہے۔
ماں”قانون کا ان ظالموں کو سخت ترین سزا دینی چاہئے، انہیں زندہ جلا دینا چاہئے تاکہ پوری دنیا کو معلوم ہوسکے کہ ایسے افراد کو کیسا سزا ملتی ہے۔ اس سے دیگر مجرموں کے اندر خوف پھیلے گا”۔
ایک اور واقعے میں زیادتی کا نشانہ بننے والی چھ سالہ بچی ہسپتال میں زندگی و موت کی جنگ لڑرہی ہے، اسے اسکے پڑوسی نے اغوا کرکے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ ان دونوں واقعات میں ملزمان نے تسلیم کیا ہے کہ اس جرم کے ارتکاب سے پہلے انھوں نے فحش فلمیں دیکھی تھیں۔ اس کے بعد ملک بھر میں فحش نگاری پر گرما گرم بحث شروع ہوگئی ہے۔ سنیئر وکیل وجے پجوانی کا ماننا ہے کہ فحش نگاری سے خواتین کے خلاف جنسی جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔ انھوں نے سپریم کورٹ میں تمام فحش ویب سائٹس پر پابندی لگانے کیلئے درخواست دائر کی ہے۔
وجے”اس سفاکی و تشدد اور فحش وڈیو کے درمیان واضح تعلق موجود ہے۔ خاص طور پر چھوٹے بچوں پر بننے والی ان فلموں کے اثرات کو خود ہمارا معاشرہ دیکھ رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اب چھوٹے بچوں تک کو ان فلموں تک رسائی حاصل ہے، انٹرنیٹ کی وجہ سے یہ زیادہ خطرناک بن چکی ہیں، میں ان سائٹس تک رسائی نہیں چاہتا اور میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ میرے پڑوسی کو بھی اس مواد تک رسائی حاصل ہو اور وہ میری بیوی کو بری نظروں سے دیکھے”۔
اس وقت بھارت میں فحش نگاری کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں، پینیل کوڈ اور آئی ٹی ایکٹ صرف مخصوص مواد کی تیاری اور ٹرانسمیشن پر پابندی عائد کرتا ہے۔اس قانون کی خلاف ورزی پر تین سال قید یا دس ہزار ڈالرز جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے، کچھ خواتین گروپس بھی فحش مواد پر مکمل پابندی کے مطالبے کی حمایت کررہے ہیں۔ رنجنا کماری نئی دہلی سے تعلق رکھنے والے سہنٹر فار سوشل ریسرچ سے تعلق رکھتی ہیں۔
کماری”فحش نگاری خواتین اور بچوں کے خلاف جارحیت اور تشدد کا سبب بنتی ہے۔ انہیں غیر انسانی اور بے رحم سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس سے جنس سے متعلق غیر حقیقی توقعات پیدا ہوتی ہیں، اس سے تشدد کو عقلی جواز ملتا ہے”۔
مگر ماہر نفسیات انوراگ مشرا کا کہنا ہے کہ جنسی زیادتی اور عریاں پن کے درمیان تعلق کا کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں۔
مشرا”ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ تعلق اور وجہ دو مختلف چیزیں ہیں، کسی چیز کا کسی اور سے تعلق ہوسکتا ہے، جیسے الکحل یا عریاں مواد دیکھنے کا تعلق زیادتی سے ہوسکتا ہے، مگر یہ اس کی وجہ نہیں ہوسکتا۔ درحقیقت دستیاب ڈیٹا دیکھنے سے بالکل مختلف تصویر نظر آتی ہے۔ وہ ممالک جہاں عریاں مواد کو قانونی حیثیت حاصل ہے وہاں جنسی جرائم کی شرح میں کمی دیکھنے میں آئی ہے”۔
مگر اپنے آپ ویمن ورلڈ نامی ادارے کی عہدیدار سومیہ سریش کا کہنا ہے کہ عریاں مواد پر پابندی کی دیگر وجوہات بھی ہیں۔
سومیہ”فحش نگاری کی صنعت صرف زیادتی یا تشدد کی وجہ نہیں، بلکہ اس کے باعث ہیومین ٹریفکنگ اور جسم فروشی کو بھی فروغ مل رہا ہے۔ یہاں ایسی متعدد استحصال زدہ خواتین اور لڑکیاں ہیں جنھیں فحش نگاری کیلئے ٹریفک کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 79 فیصد ہیومین ٹریفکنگ کے شکار جنسی استحصال اور فحش نگاری کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں”۔
دوہزار دوءمیں ماہرین کے ایک پینل تشکیل دیا گیا تھا تاکہ فحش ویب سائٹس پر پابندی عائد کی جاسکے، مگر سائبر کرائم کے وکیل اپر گپتاکا کہنا ہے کہ یہ ایک ناممکن کام ہے۔
گپتا”دیکھنا کوئی غیرقانونی عمل نہیں، آپ کسی خاص پیج کو بلاک کرسکتے ہیں مگر آپ عوام تک عریاں مواد کی رسائی نہیں روک سکتے۔ ہم قانون کے ذریعے انسانی خواہش کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اور یہ اکثر اوقات ناکام ثابت ہوتی ہے۔ اور اگر آپ فحش نگاری اور زیادتیوں کے درمیان تعلق بھی ثابت کردے تو بھی لوگوں کو عریاں مواد دیکھنے سے روکنا بہت مشکل ہوگا”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |