Written by prs.adminSeptember 5, 2012
(School in South Korea Teaches Citizens How To Spy on Neighbors) جنوبی کوریا کے جاسوس شہری
Asia Calling | ایشیا کالنگ . General Article
جنوبی کوریا میں قانون توڑنے والے خبردار ہوجائیں کیونکہ اب عام شہری بھی غیر قانونی سرگرمیوں کی وڈیو پولیس کو فروخت کرکے رقم بنانے میں مصروف ہوگئے ہیں۔شہریوں کو اس کام کی تربیت کیلئے ایک اسکول بھی کھول دیا گیا ہے، تاہم اس پر کچھ سماجی ماہرین تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔
Ji Soo-hyun اس وقت دو زندگیاں گزار رہی ہیں، اس گھریلو خاتون نے چھ ماہ قبل قانون شکنوں کو رنگے ہاتھوں پکڑانے کی ملازمت کو اختیار کیا۔ 54 سالہ خاتون کا کہنا ہے کہ انہیں نجی اسکولوں میں ہونیوالی بے ضابطگیوں کو پکڑنے میں مہارت حاصل ہے۔
(female) Ji Soo-hyun “میں یہ ظاہر کرتی ہوں کہ میں اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کرانا چاہتی ہوں، میں اسکول انتظامیہ سے اضافی خدمات کا مطالبہ کرتی ہوں، آج کل کے اسکولوں میں کئی قسم کی غیرقانونی سرگرمیاں ہوتی ہیں، جیسے بہت دیر سے کھلنا یا اضافی فیس لینا وغیرہ، اسی طرح کی چیزیں میں ریکارڈ کرلیتی ہوں”۔
Ji Soo-hyun جب اپنے مشن پر کام کررہی ہوتی ہیں تو وہ ایک چھوٹا سا کیمرہ استعمال کرتی ہیں جسے بیگ میں چھپایا گیا ہوتا ہے۔ وہ ان سینکڑوں شہریوں میں سے ایک ہیں جنھیں قانون توڑنے والے افراد اور تاجروں کی جاسوسی کے لےءخفیہ وڈیو ریکارڈنگ کرنا سیکھایا گیا ہے۔
یہ آواز Seoul کے ایک دواخانے میں بنائی گئی وڈیو کی ہے۔ ایک شہری دوا خانے کے کیشئیر کی جانب سے پلاسٹک بیگ کی رقم نہ لینے کے واقعے کو فلمبند کررہا ہے۔ جنوبی کوریا میں یہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔
یہ شہری جاسوس Seoul کے paparazzi اسکول کے طالبعلم ہیں۔
اس اسکول میں یہ لوگ خفیہ وڈیو بنانے کے فن کے بارے میں سیکھتے ہیں، وہ ایسے چھوٹے کیمرے بھی استعمال کرسکتے ہیں جنھیں زیورات میں چھپایا جاسکے۔ انہیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اگر وہ غیر قانونی سرگرمیوں کو فلمبند کرسکے تو اس کی اطلاع پر انتظامیہ کی جانب سے رقم ملے گی۔
Moon Seong-ok گزشتہ چودہ برس سے paparazzi اسکول چلارہے ہیں،وہ اپنے طالبعلموں کوخفیہ فوٹیج کیلئے سامان کی خریداری میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔
(male) Moon Seong-ok “یہاں آنے والے طالبعلم رقم کمانے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ میں پولیس، مقامی سرکاری عہدیداران، طبی اداروں اور تعلیمی انتظامیہ سے رابطے رکھتا ہوں، جو میرے طالبعلموں کو رقم ادا کرتے ہیں”۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ خفیہ جاسوس سالانہ بیس سے تیس ہزار ڈالر کما سکتے ہیں، مگر کچھ حلقوں میں اس رجحان پر تشویش بھی ظاہر کی جارہی ہے، انکا کہنا ہے کہ اس چیز نے عام لوگوں کو اپنے پڑوسیوں کا جاسوس بنادیا ہے۔ Koo Ja-kyoung ایک عام شہری ہیں، وہ اس اسکول کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔
(male) Koo Ja-kyoung “ایک دن باہر گھومتے ہوئے میں نے ایک بزرگ خاتون کو روتے ہوئے دیکھا۔ میں نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اسے پلاسٹک بیگ میں کچرا باہر رکھنے پر جرمانہ ادا کرنا پڑا ہے۔ اس خاتون کا کہنا تھا کہ کسی شہری جاسوس نے اس کی تصویر کھینچ لی اور پولیس کے حوالے کردی”۔
Koo Ja-kyoung کا کہنا تھا کہ اس خاتون کے انکشاف نے مجھے حیرت زدہ کردیا اور انھوں نے ہیومین رائٹس کمیشن میں شکایت درج کرادی۔کمیشن کے مطابق گزشتہ چند برسوں کے دوران Koo Ja-kyoung پہلے شخص ہیں جنھوں نے ان خفیہ فوٹوگرافرز کیخلاف شکایت درج کرائی۔ کمیشن نے تاحال اس شکایت پر سماعت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ جنوبی کورین شہریوں کو اس قسم کی جاسوسی کی پروا نہیں، بلکہ وہ اس کے خلاف بولنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ Chun Sang-chin، Seoul کی Sogang University میں سماجیات پڑھاتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ عام شہریوں کو اس طرح کی سرگرمیوں کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔
(male) Chun Sang-chin “یہ معاملہ بہت حساس ہے، لوگ فکر مند ہیں اگر انھوں نے اس بارے میں کچھ بولا اور شکایت کی تو دیگر افراد کے ذہنوں میں یہ بات آئے گی کہ یہ شخص کچھ غلط کام کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس معاملے پر خاموش رہنا پسند کرتے ہیں”۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو ان وڈیوز پر معاوضہ ادا کرنا بند کردینا چاہئے، اس سے لوگوں میں خفیہ وڈیوز بنانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہوگی۔تاہم جاسوس اسکول کے بانی Moon Seong-ok کا کہناہے کہ انہیں اپنے یا اپنے طالبعلموں کے کام پر کسی قسم کی شرمندگی نہیں۔
(male) Moon Seong-ok “اچھے شہری اسی طرح قوانین کی اطاعت کرتے ہیں جیسے میرے طالبعلم کرتے ہیں۔ مگر جو لوگ قانون شکنی کرتے ہیں وہ میرے طالبلعموں کے کام سے خود کو مشکل میں محسوس کرتے ہیں”۔
جاسوس شہری Ji Soo-hyun اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔
(female) Ji Soo-hyun ” شروع میں لوگوں کے بارے میں رپورٹ کرتے ہوئے میں پشیمانی محسوس کرتی تھی، پھر مجھے احساس ہوا کہ ہمارے ارگرد کس حد تک غیرقانونی سرگرمیاں ہورہی ہیں۔ یہ لوگ غریب زندگی گزارنے کے لئے جدوجہد کرنے میں مصروف نہیں، اس کے بعد مجھے کبھی شکایات کرتے ہوئے ندامت نہیں ہوئی”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
Leave a Reply