Written by prs.adminMarch 14, 2013
Saving Malaysia’s Mother Tongues – ملائیشین مادری زبانوں کا تحفظ
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
ملائیشیاءایشیاءمیں مختلف زبانوں کی آماجگاہ سمجھا جاتا ہے، یہاں ایک درجن سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں، تاہم زبانوں کی اس ثقافت کے باوجود ماہرین کو ڈر ہے کہ یہاں کی کئی مقامی زبانیں ختم ہونے کے قریب ہیں۔
پچاس سالہ جو ڈنگ ،پُوچونگ کی رہائشی ہیں۔
جو ڈنگ” میرے تین بچے ہیں اور انکی مادری زبان ہوکِن ہیں، ہوکِن چینی زبان سے نکلی مقامی بولی ہے، میرے دو بیٹوں نے ہو کِن اپنے دادا دادی سے سیکھی، یہی وجہ ہے کہ وہ ابھی تک اس کو بول اور سمجھ سکتے ہیں”۔
وہ بتارہی ہیں کہ ان کی مادری زبان خاتمے کے قریب پہنچ گئی ہیں۔
جو ڈنگ” میری سب سے چھوٹی بچی اپنی مادری زبان نہ تو بول سکتی ہے اور نہ ہی سمجھ سکتی ہے۔ شروع میں ملائیشیا آنے والے چینی شہری منڈا رین زبان سے واقف نہیں تھے، کیونکہ وہ ہوکِن یا کینٹونز بولتے تھے، تاہم لگتا ہے کہ ہماری آئندہ کی نسل اپنی مادری زبانوں سے کم سے کم واقف ہوگی”۔
اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ دنیا میں اس وقت بولی جانے والی نصف سے زائد زبانیں 2100ءتک ختم ہوجائیں گی۔ملائیشیاءمیں ایک درجن سے زائد زبانیں بولے جانے کے باوجود یہاں کوئی ایسا حکومتی ادارہ نہیں جو غیر ملائیشین زبانوں کا تحفظ کرسکے۔ ڈاکٹر پیٹریشیا نورا ریگیٹ، ملایا یونیورسٹی کے ایشئن یو رپیئن لینگویجز ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ ہیں، وہ مادری زبانوں کی اہمیت بتارہی ہیں۔
پیٹریشیا” زبان ثقافت سے جڑی ہوتی ہے، زبان کے ذریعے ہی ہمیں اپنی ثقافت کے بارے میں معلوم ہوتا ہے، اور لوگوں کے طرز زندگی کا پتا چلتا ہے۔ مثال کے طور پر بچے جب اسکول جاتے ہیں تو ان کے لئے اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے”۔
ڈاکٹر پیٹر،شِیا ایک قبیلے بِدائیو سے تعلق رکھتی ہیں، جن کی بیشتر آبادی ریاست ساراواک میں مقیم ہے، اس قبیلے کی آبادی اب صرف دو لاکھ رہ گئی ہے۔
پیٹرِشِیا” زیادہ سے زیادہ نوجوان بدائیوز اب اپنے گھروں میں اپنی مادری زبان بدائیو نہیں بولتے، وہ اپنے دوستوں کے ساتھ انگریزی یا باہاسا ملائیو زبان میں باتیں کرتے ہیں۔ میرے لئے یہ کہنا تو مشکل ہے کہ بدائیو خطرے کی زد میں ہے، مگر ہم نے کچھ نہ کیا تو اس کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔کیونکہ اس وقت تمام دیہات میں انٹرنیٹ اور ٹیلیویژن کی رسائی موجود ہے جس میں دیگر زبانوں پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے”۔
اُنیس سو سترکی دہائی کے بعد سے حکومت مالے کو انگریزی کے متبادل کے طور پر رائج کرنے کی کوشش کررہی ہے، جی وی کاتھا ئی آہ، تامل زبان کی خبروں کے ایڈیٹر ہیں۔
جی وی کاتھا ئی آہ” یہ حکمران جماعت کی پالیسی ہے کہ صرف ایک زبان کو ترجیح دی جائے جو کہ باہا سا ملائے ہے،منڈرین اور تامل زبانوں کو جانا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ آج کا تعلیمی نظام اسی پالیسی کے تحت چل رہا ہے، اگر اس پر کامیابی سے عملدرآمد ہوگیا تو تامل اور چینی اسکول ختم ہوجائیں گے”۔
اس ملائیشیا میں 25 لاکھ بھارتی شہری تامل زبان بولتے ہیں، جی وی کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپنے ملک کی مقامی زبانوں کا بھی احساس کرنا چاہئے۔
جی وی” ایک قوم اور ایک زبان کا تصور اب ختم ہوچکا ہے، قومی زبان اتحاد کا عنصر ضرور ہے اور ہمیں مالے زبان کی اہمیت کو ماننا چاہئے، مگر اس کے ساتھ ہمیں اپنی منڈرین، تامل اور دیگر زبانوں کی اہمیت کو بھی سمجھنا چاہئے۔ سنگاپور میں مالے قومی زبان ہے، جبکہ انگریزی، تامل اور منڈرین کو سرکاری زبانوں کی حیثیت حاصل ہے۔یہاں ایسا کرنے میں کیا مشکل ہے؟ ہمیں تو کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، مگر لگتا ہے کہ حکمران جماعت کے سیاستدانوں کو اس سے ضرور مسئلہ ہے”۔
گزشتہ سال حکومت نے سرکاری اسکولوں میں سائنس اور ریاضی کے مضامین میں انگریزی کا استعمال روک دیا تھا، وزارت تعلیم کا کہنا تھا کہ اس سے طالبعلموں کو پڑھنے میں زیادہ آسانی ہوگی، تاہم متعدد افراد اسے تعلیمی کی بجائے سیاسی اقدام قرار دیتے ہیں۔
او رینگ ایسلیس ملائشیاءمیں انتہائی قدیم زمانے میں آنے والے قبیلہ مانا جاتا ہے، مگر انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے کارکن رامن باہتُئن کے مطابق یہ قبیلہ بھی اپنی زبان کو بچانے کی مشکل کا شکار ہے۔
رامن باہتُئن” یہاں تک کہ میری نسل کے متعدد بچے بھی مالے یا انگریزی بولنے کو ترجیح دیتے ہیں، جب یہ نوجوان شہروں میں منتقل ہوتے ہیں تو دیگر زبانوں کو اپنا لیتے ہیں، جب آپ مختلف زبانوں کو ملاتے ہیں تو حقیقی زبان غائب ہوجاتی ہے، میں اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ اگر کسی زبان کو بولنا چھوڑ دیا جائے تو وہ دو نسلوں کے اندر ہی ختم ہوجاتی ہے”۔
اگرچہ حالیہ برسوں کے دوران اورینگ ایسلیس کے حقوق پر توجہ دی گئی ہے، تاہم اب بھی اس قبیلے کے بہت سے افراد منظم طور پر عظیم مالے ثقافت میں مدغم کئے جارہے ہیں، ڈاکٹر پیٹریشِیا کے مطابق ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں زبانوں کو اہمیت دی جائے۔
پیٹریشیا” اس عالمگیر دنیا میں انگریزی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے، ہر شخص انگریزی استعمال کرتا ہے، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہم اپنی مادری زبانوں کو پس پشت ڈال دیں۔ اہم ترین چیز اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ بچے کئی زبانوں کو بولنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، یعنی اپنی مادری زبان اور انگریزی وغیرہ، میرے خیال میں تو یہی اس مسئلے کا حل ہے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | 4 | 5 | ||
6 | 7 | 8 | 9 | 10 | 11 | 12 |
13 | 14 | 15 | 16 | 17 | 18 | 19 |
20 | 21 | 22 | 23 | 24 | 25 | 26 |
27 | 28 | 29 | 30 | 31 |
Leave a Reply