Written by prs.adminOctober 29, 2013
Reviving Kashmir’s Traditional Folk Theatre -کشمیری لوک تھیٹر
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
کشمیری لوک تھیٹر کی روایت صدیوں پرانی ہے، مگر گزشتہ دہائیوں میں تحریک آزادی کے دوران تھیٹر کافی متاثر ہوا ہے، تاہم اب اس کی بحالی نو کیلئے تحریک کا آغازہوا ہے، اسی بارے میں سنتے ہیں کی آج کی رپورٹ
ایک مقامی تھیٹر گروپ ایک ڈرامے پھر تھروپر کام کررہا ہے، یہ موجودہ کشمیری معاشرے پر ایک طنزیہ ڈرامہ ہے، ڈائریکٹر رشید معاشرتی تبدیلی کی قیمت کو سامنے لانا چاہتے ہیں۔
رشید”کوئی بھی ترقی اور آگے بڑھنے کے خیال سے ناخوش نہیں، مگر کیا اس کی قیمت ثقافت، اقدار اور تاریخ ہونی چاہئے؟ یہی سب کچھ ہم آج کے کشمیر میں دیکھ رہے ہیں، جو مکمل طور پر تبدیل ہوگیا ہے، مثال کے طور پر ہم کشمیر اپنی مہمان نوازی کیلئے مشہور ہیں، اور یہی چیز بڑی تعداد میں سیاحوں کو کشمیر کی جانب کھینچتی ہے، مگر اب ہماری مہمان نوازی دھوکہ بازی میں تبدیل ہوکر رہ گئی ہے”۔
یہ ڈرامہ سالانہ کشمیری لوک تھیٹر فیسٹول کا حصہ ہے، اس فیسٹیول میں چالیس گروپس شریک ہیں، تمام ڈرامے کشمیری زبان میں ہیں جس میں مختلف موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ایک اور ڈرامے مسافر میں ڈائریکٹر معصوم رمضان ماحولیاتی تشویش پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔
رمضان”گلوبل وارمنگ یا موسمیاتی تبدیلیوں دنیا بھر میں تشویش کا سبب بنی ہوئی ہیں، مگر یہاں اس کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جارہا ہے حالانکہ گزشتہ برسوں کے دوران ہمیں بہت زیادہ ماحولیاتی تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس موضوع پر بات کئے جانیکی ضرورت ہے اور اسے روکنے کی ضرورت ہے ورنہ ہمیں تباہ کن نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا”۔
رواں برس یہ فیسٹیول چار برس کے وقفے کے بعد منعقد ہوا ہے، مگر کشمیر کلچرل اکیڈمی کے ار وندرر سنگھ امن کا کہنا ہے کہ وہ عوامی ردعمل سے خوش ہیں۔
امن”اکیڈمی اور فنکار مواقعے پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ہم اپنی سرگرمیوں اور پروگرامز کے ذریعے خطے کے فن اور زبانوں کی ترویج کرنے کیلئے کوشاں ہیں، اور اس طرح کے فیسٹیولز اس کا حصہ ہیں۔ ہم اس طرح کی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے ورثے کو اگلی نسل تک منتقل کیا جاسکے”۔
کشمیر میں 1989ءسے جاری تحریک آزادی کے دوران اب تک لاکھوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جبکہ تھیٹر کی روایت بھی دم توڑ رہی ہے۔پلے رائٹر معصوم رمضان کا کہنا ہے کہ حکومتی کلچرل اکیڈمی کو اس حوالے سے کافی کچھ کرنا ہوگا۔
رمضان”کلچرل اکیڈمی نے اس سالانہ فیسٹیول کا انعقاد چار برس کے وقفے کے بعد کیا، تاہم اس کے انتظامات ناقص ہیں، یہاں سہولیات اور بنیادی اسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے۔ریہرسل کیلئے آڈیٹوریم چار برس سے زیرتعمیر ہے، اور ابھی تک معلوم نہیں کہ یہ کب مکمل ہوگا”۔
طارق احمد نوعمری سے ہی لوک تھیٹر سے وابستہ ہیں، مگر دیگر فنکاروں کی طرح انہیں بھی لگتا کہ کہ کشمیر فنی لحاظ سے آگے بڑھنے کیلئے مناسب مقام نہیں۔
احمد”میرا نہیں خیال کہ صورتحال ہمارے لئے بہتر ہوگی، ہمیں یہاں ایسا احترام حاصل نہیں جیسا بھارت میں فنکاروں کو ملتا ہے، ہمارے کام کو نامناسب سمجھا جاتا ہے اور ہمارے ساتھ بھکاریوں جیسا سلوک ہوتا ہے”۔
ایک اور اداکار عبدالصمد بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔
عبدالصمد”اسٹیج پر ڈرامہ بہت مہنگا ہے، اس کیلئے درکار کاسٹیومز اور میک اپ کیلئے کافی رقم کی ضرورت ہوتی ہے، اور کلچرل اکیڈمی ہمارے اخراجات کا بوجھ کم ہی اٹھاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں ہماری ریاست میں باہر سے جب کوئی فنکار اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے آتا ہے تو اکیڈمی انکے ساتھ خصوصی سلوک کرتی ہے، انہیں فائیو اسٹار رہائشی سہولیات اور اچھا معاوضہ دیا جاتا ہے، اب اگر اکیڈمی مقامی ثقافت کو فروغ دینا چاہتی ہے اور ہمارے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہے تو آخر ہم دوسروں سے اپنے لئے احترام کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں؟”
تاہم تمام تر مشکلات کا باوجود کشمیری لوک تھیٹر مقامی افراد کے دلوں میں خصوصی مقام رکھتا ہے، معصوم رمضان کا کہنا ہے کہ کلچرل اکیڈمی میں اصلاحات کئے جانے کی ضرورت ہے۔
رمضان”ابھی یہاں ایسے افراد موجود ہیں جو صرف تنخواہ کیلئے کام کررہے ہیں، وہ فن اور ثقافت کیلئے کچھ نہیں کررہے اور نہ ہی انہیں اس کی پروا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اکیڈمی ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دی جائے جو معاشرے میں فن اور ثقافت کی اہمیت سے آگاہ ہو اور اس کیلئے سنجیدگی سے کچھ کرنا چاہتے ہوں”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |