Written by prs.adminApril 20, 2013
Residents of a South Korean Island Cope with Living Next Door to North Korea – شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان کشیدگی
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ چکی ہے، اور پیانگ یانگ حکومت نے سیﺅل اور اس کے اتحادی امریکہ پر جوہری حملے کی دھمکی دیدی ہے۔ مشترکہ سرحد پر دونوں ممالک کی افواج انتہائی الرٹ ہیں۔ اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
بینگیانگ آئی لینڈ کے شمالی ساحل کو مکمل طور پر خاردار باڑیں اور سیمنٹ کی دیواروں کے ذریعے بند کردیا گیا۔ تاہم کچھ جگہ خالی چھوڑی گئی ہے جہاں سے ماہی گیر شکار کیلئے سمندر میں جاسکتے ہیں۔ تاہم ان دنوں کوئی بھی سمندر میں جانے کے لئے تیار نہیں۔
ہماری ملاقات یہاں کے ایک ماہی گیر لی ھاوا سن سے ہوئی، جو اپنے مچھلی کے جال کی مرمت کررہے تھے۔
لی ھاوا سن “عام طور پر میں اپنی کشتی میں پہلے پانچ منٹ تک سمندر کی سیر کرتا ہوں، اس کے بعد مچھلی کا شکار شروع کرتا ہوں، مگر اب شمالی کوریا کے خطرے کے باعث میں زیادہ دور جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا”۔
بینگیاگ شمالی کورین سرحد سے صرف پندرہ کلو میٹر دور واقع ہے، گزشتہ ماہ شمالی کورین صدر کم جونگ ان نے اپنی فوج کو حکم دیا تھا کہ اگر جنگ شروع ہوتی ہے تو وہ اس جزیرے کا کنٹرول سنبھال لے۔ بحر زرد کا یہ ساحلی علاقہ شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان طویل عرصے سے وجہ تنازعہ بنا ہوا ہے، مگر اب مقامی افراد بہت زیادہ فکرمند ہیں۔
ایک اور ساحلی بندرگاہ پر کام کرنے والی خواتین اس وقت دوپہر کا کھانا کھا رہی ہیں، ان سب کی عمریں ستر سال سے زائد ہیں اور وہ اپنے نام بتانے کیلئے تیار نہیں، تاہم انکا کہنا ہے کہ پیانگ یانگ کے مظالم حد سے زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ وہ اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ شمالی کوریا کو نوجوان صدر کے بارے میں پیشگوئی کرنا ممکن نہیں۔
ویمن” کم جونگ ایون اپنے والد کم جونگ ال بھی بدتر ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ کب میزائل داغ دے، ہم سب خوفزدہ ہیں”۔
شمالی کورین جارحیت سے بچاﺅ کیلئے اس جزیرے پر کافی اقدامات کئے گئے ہیں، ہزاروں جنوبی کورین فوجی اور میریز یہاں تعینات ہیں، جبکہ رہائشیوں کے تحفظ کیلئے نوے بم پروف پناہ گاہیں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔
کم جن گک ایسی ایک پناہ گاہ کے اندر لگا نقشہ دکھاتے ہوئے سمجھا رہے ہیں کہ بینگنیانگ شمالی کوریا سے کتنا قریب ہے۔ وہ اس جزیرے پر سول ڈیفنس فورس کے سربراہ ہیں، انکا کہنا ہے کہ مقامی شہری دیگر جنوبی کورین افراد کی طرح شمالی کوریا سے لاحق خطرات کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔
کم جن گک”یہاں حملے کا خطرہ بہت زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے باسی سیﺅل یا کسی اور جگہ کے مقابلے میں شمالی کوریا کے خطرے سے زیادہ باخبر ہیں۔ یہ لوگ کسی بھی ممکنہ حملے سے خوفزدہ ہیں”۔
تاہم انکا کہنا ہے کہ انہیں جنگ کا تو نہیں البتہ کسی اچانک حملے کا خطرہ ہے، جیسا شمالی کوریا نے 2010ءمیں ایک قریبی جزیرے یﺅنگپیانگ پر کیا تھا، جس میں چار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔کم کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے یہاں بمباری کی تو الارم بجتے ہی تمام رہائشی پناہ گاہوں کا رخ کریں گے، تاہم وہ توقع کرتے ہیں کہ کبھی ایسا نہ ہو۔
سیاحت یہاں کی مرکزی صنعت ہے، تاہم حکام کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کی دھمکیوں کے باعث اب سیاح یہاں کا رخ نہیں کررہے۔یہاں تک کہ کچھ کمپنیوں نے تفریحی کشتیوں کی سروس بند کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ موجودہ صورتحال کب تک برقرار رہے گی۔ پارک ڈونگ سک ،من ہﺅا نامی ہوٹل کے مالک ہیں، انکا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال سے کاروبار بری طرح متاثر ہورہا ہے۔
پارک”شمالی کوریا کے خطرے اور بینگنیانگ کے بارے میں میڈیا کوریج کے باعث میرے مہمانوں نے آئندہ کئی ماہ کیلئے اپنی ریزریشن منسوخ کرادی ہے۔ اس صورتحال کا اثر مقامی کاروبار پر پڑا ہے اور یہ اب تک کی سب سے بدترین صورتحال ہے”۔
تاہم پارک کیلئے آج کا دن اچھا ثابت ہوا، کیونکہ سیﺅل سے تعلق رکھنے والے چالیس سے زائد سیاح ان کے ہوٹل میں مقیم ہیں، ان سب کا تعلق سینیئر سیٹیزن تریول کلب سے ہے۔ نام جیونگ وو بھی ان میں شامل ہیں۔
جیونگ”اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم یہاں جزیرے میں رہے یا گھر واپس چلے جائیں؟ اگر اس جزیرے پر حملہ ہوا تو ہمارا پورا ملک حالت جنگ میں چلا جائے گا، جنوبی کوریا کا ہر حصہ میدان جنگ بنا جائے گا”۔
تاہم اپنے ٹور کے اختتام پر یہ لوگ اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں گے، جبکہ بینگنیونگ شمالی کوریا کے ہتھیاروں کو جھکتے ہوئے دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ پارک ڈونگ سک کا کہنا ہے کہ وہ اس کشیدگی کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔
پارک”میں شمالی کوریا سے خوفزدہ نہیں، میں یہاں ہمارے تحفظ کیلئے تعینات فوجیوں کی صلاحیت پر بھروسہ کرتا ہوں، یہاں کی صورتحال چاہے جتنی بھی خراب ہوجائے میں اس جزیرے کو چھوڑ کر کبھی نہیں جاﺅں گا”۔
تاہم بہت سے مقامی باسی ضرورت پڑنے پر یہاں سے جانے کے لئے تیار ہیں
ماہی گیر لی ہﺅا سن کا کہنا ہے کہ وہ اس جزیرے کو چھوڑنے پر غور کررہا ہے۔
لی”میرے بچوں نے میری بیوی اور مجھے کہا ہے کہ ہمیں اس جزیرے کو چھوڑ کر کسی محفوظ علاقے میں چلا جانا چاہئے۔ میں اس بارے میں سوچ رہا ہوں کیونکہ اس وقت شمالی کوریا کی جانب سے بہت زیادہ شور کیا جارہا ہے، تاہم اگر ہم سب یہاں سے چلے جائیں گے تو پھر اس جزیرے کا کیا ہوگا؟”
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |