Written by prs.adminJanuary 8, 2014
Remote Indonesian Island Turns Itself Into a Model of Clean Energy Use انڈونیشین توانائی ماڈل
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
انڈونیشیاءکا سامبا آئی لینڈ توانائی کے متبادل ذرائع کے حصول کیلئے کوشاں ہے، ایک برس قبل یہاں کے بیشتر رہائشی بجلی سے محروم تھے مگر اب ان کی زندگیوں میں تبدیلی آئی ہے۔ اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
پہلے سامبا آئی لینڈ میں جیسے ہی سورج غروب ہوتا تھا یہاں کی آدھی آبادی تاریکی میں ڈوب جاتی تھی، مگر اب یہاں ایک انقلاب آگیا ہے۔
مغربی سامبا کے ایک گاﺅں میں 37 سالہ عمبو چنتا اپنے گھر کی نشست گاہ میں بیٹھی ہوئی ہیں، انکی زندگی کا بڑا حصہ بجلی کے بغیر ہی گزرا ہے۔
رمبو”پہلے رات کو ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا تھا، تو بس ہم رات کا کھانا کھاتے ہی سو جاتے تھے”۔
مگر اب ان کے گھروالے بجلی کی نعمت سے مستفید ہورہے ہیں جوکہ قریبی مائیکرو ہائیڈرو پاور پلانٹ سے آرہی ہے۔ امبو ہینگر اس گھرانے کے سربراہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس سے ان کے خاندان کا طرز زندگی بہتر ہوا ہے۔
امبو”جب ہمیں بجلی میسر آئی تو اس سے خواتین کو رات میں سلائی کڑھائی کی سہولت مل گئی، جس سے ہمیں اضافی آمدنی حاصل ہونے لگی ہے اور بچے بھی اب رات کو آرام سے پڑھائی کرسکتے ہیں”۔
سامبا کے ساٹھ فیصد افراد کو بجلی کی سہولت میسر آگئی ہے، جبکہ بیس فیصد افراد توانائی کے متبادل زرائع استعمال کررہے ہیں، توقع ہے کہ 2025ءتک یہاں تمام افراد تک بجلی پہنچ جائے گی۔ ڈچ این جی اوایچ آئی طی او ایس نے سامبا کو توانائی کے متبادل ذرائع کے حوالے سے مثالی جزیرہ بنانے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔آدی لاگراس جزیرے میں ڈچ این جی او کے کوآرڈنیٹر ہیں۔
آدی”یہاں ماحول دوست توانائی کو فروغ دینے کی وجہ یہ ہے کہ سامبا توانائی کے متبادل ذرائع کے وسائل سے مالامال ہے۔ ہم یہاں شمسی، ہوا، پانی اور جانوروں کے فضلے وغیرہ سے بجلی پیدا کرسکتے ہیں”۔
گزشتہ برس اس سلسلے میں ایک ٹاسک فورس قا ئم کی گئی تھی، جبکہ رواں برس کے شروع میں ایشیائی ترقیاتی بینک نے اس منصوبے کیلئے دس لاکھ ڈالرز بھی فراہم کئے تاکہ اس کو انڈونیشیاءکے دیگر حصوں تک توسیع دی جاسکے۔ آدی لاگر کا کہنا ہے کہ یہ صرف ماحولیات کے تحفظ کیلئے نہیں بلکہ اس کے معاشی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔
آدی”اس وقت انڈونیشین حکومت ڈیزل پر بھاری سبسڈی دے رہی ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا جب اسے یہ سبسڈی ختم کرنا پڑے گی۔ ہم نہیں چاہتے کہ حکومتی سبسڈی کے خاتمے کے بعد اس برادری کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے یہاں کے وسائل سے توانائی کے حصول کا سوچا جس سے ماحولیاتی بہتری بھی ممکن ہوسکے گی”۔
یہاں مائیکرو ہائیڈرو پراجیکٹ سطح سمندر سے چھ سو میٹر بلندی پر لگایا گیا ہے۔آمیلےا انڈونیشیاءکے ممتاز تعلیمی ادارےبینڈونگ سے گریجویشن کرچکی ہیں۔
آمیلیا”یہ علاقہ ریاستی بجلی سے منسلک نہیں جس کیلئے ڈیزل جنریٹرز استعمال کئے جاتے ہیں، یہاں ہوا بہت تیز ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں ہوا سے بجلی پیدا جاسکی ہے تو پھر اس سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا جائے؟”
امیلیا ایک مقامی این جی او کے ساتھ ملکر مغربی اور مشرقی انڈونیشیاءمیں مختلف توانائی منصوبوں پر کام کررہی ہیں۔
امیلیا”جاوا میں ہم کچرے سے بجلی بنارہے ہیں، پورا ملک بجلی سے جگمگا رہا ہے مگر انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان کے پاس بالکل بھی بجلی نہیں اور رات کو ان کے بچے پڑھ بھی نہیں پاتے۔ یہ انصاف نہیں کہ ایک جگہ تو بجلی دستیاب ہے اور دوسری جگہ نہیں، یہ بہت افسوسناک امر ہے”۔
امیلیا کے منصوبے سب اب تک بائیس خاندانوں کو بجلی دی جاچکی ہے، یہ شخص اپنے گھر میں موبائل فون چارج کرکے خوش ہے۔
عام آدمی”اس سے پہلے مجھے قریبی جگہ جانا پڑتا تھا جہاں بجلی موجود ہے، جو کہ سات کلو میٹر دور ہے۔ وہاں مجھے موبائل فون چارج ہونے کا انتظار کرنا پڑتا تھا اور پھر سات کلومیٹر پیدل چل کر گھر آنا پڑتا تھا”۔
جانوروں کے فضلے سے بھی ماحول دوست توانائی بنائی جارہی ہے، ہینرچ ڈینگی ، وینگاپومیں ایک معروف مقامی ریڈیو اسٹیشن چلارہے ہیں۔
ڈینگی”جانوروں کا فضلہ بیکٹریا کے کیمیائی ری ایکشن کے باعث بائیو گیس میں تبدیل ہوتا ہے، جسے ایک پائپ کے ذریعے باورچی خانے سے منسلک کردیا جاتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے پانی کے پائپ، اور پھر اس گیس کے ذریعے ہم چولہا جلا کر کچھ بھی پکا سکتے ہیں”۔
انڈونیشیا الیکٹرسٹی کمپنی کے عہدیدار سلیمان کو توقع ہے کہ رواں برس کے اختتام تک مشرقی سامبا میں سو فیصد تک توانائی کے متبادل ذرائع کو استعمال کیا جانے لگے گا۔
سلیمان”میرا ہدف ہے کہ 2013ءکے آخر تک مشرقی سامبا میں ڈیزل سے بجلی کی پیداوار کا خاتمہ کیا جائے گا، بلکہ اس کے لئے متبادل ذرائع استعمال کئے جائیں گے”۔
گزشتہ برس جب شمسی پینل اس گاﺅں میں نصب کئے گئے تو یہ بچے اپنی زندگی میں پہلی بار ٹیلیویژن دیکھنے کے قابل ہوگئے۔ یونس نامی رہائشی کا کہنا ہے کہ یہ تفریح کے ساتھ ساتھ دنیا کو جاننے کی کھڑکی بھی ہے۔
یونس”ہم خبریں دیکھ یہ جاننا پسند کرتے ہیں کہ باہر کی دنیا میں کیا ہورہا ہے، یہ اس لئے بھی جاننا ضروری ہے کیونکہ آئندہ سال صدارتی انتخابات ہورہے ہیں، اس سے پہلے ہم افواہوں کی بنیاد پر اپنے امیدوار کا تعین کرتے تھے مگر اب ہم جانتے ہیں کہ ملک کے کیا حالات ہیں اور ہمیں کس شخص کو ووٹ دینا چاہئے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | 4 | 5 | ||
6 | 7 | 8 | 9 | 10 | 11 | 12 |
13 | 14 | 15 | 16 | 17 | 18 | 19 |
20 | 21 | 22 | 23 | 24 | 25 | 26 |
27 | 28 | 29 | 30 | 31 |