Written by prs.adminMarch 26, 2013
Pakistani Parliament Bans Corporal Punishment in Schools – پاکستان میں جسمانی سزا پر پابندی
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
قومی اسمبلی نے گزشتہ دنوں اسکولوں میں بچوں پر جسمانی تشدد پر پابندی کا بل منظور کیا، اب ایسا کرنے والے ہر استاد کو ایک سال قید یا پانچ سو ڈالرز کا جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ ادلاور خان نامی بچہ بس کنڈیکٹر کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔
دلاور خان” میں نے ایک سال قبل اسکول محض مارپیٹ کی وجہ سے چھوڑا تھا۔ ہمارے اساتذہ ہمیں چھڑیوں اور ربڑ سے مارتے تھے، میری عمر صرف بارہ سال ہے، میری طرح سینکڑوں بچے اسکولوں میں ہونے والے جسمانی تشدد سے خوفزدہ ہیں، اس طرح کی سزا کو برداشت کرنا بہت مشکل ہے”۔
جسمانی تشدد پاکستانی طالبعلموں کیلئے ایک مشکل حقیقت ہے، تاہم اس حوالے سے کوئی سرکاری اعدادوشمار نہیں کہ کتنے بچے سالانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔حال ہی میں لاہور کے ایک نجی اسکول کی طالبہ ملکہ کا معاملہ سامنے آیا تھا، جس کی استاد نے ایک قلم اس کی دائیں آنکھ میں گھسا دیا جس سے اس آنکھ کی بنیائی ہمیشہ کیلئے ختم ہوگئی۔اسی طرح گزشتہ برس تیرہ سال عبدالمبین نے اسکول میں مارپیٹ کے بعد دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کرلی تھی۔ اس کے والد محمد رفیق کا ماننا ہے کہ ان کے بیٹے کے استاد کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جانا چاہئے۔
محمد رفیق” اس کے استاد نے اسے دوبار مارا، اس سے وہ دلبرداشتہ ہوگیا، اتوار کو جب وہ گھر آیا تو اس نے خودکشی سے قبل ڈائری لکھی۔ میرے بیٹے نے اپنی خودکشی کا ذمہ دار اپنے استاد کو قرار دیا، میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے بھی اپیل کی، تاہم انھوں نے اس کا نوٹس نہیں لیا”۔
ایک این جی او ،سوسائٹی فار دا پروٹیکشن آف دا رائٹس آف دا چائلڈکے مطابق سالانہ ہزاروں بچے جسمانی سزا کے خوف سے اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ تاہم زیادہ تر مارپیٹ کی شکایات نجی کے مقابلے میں سرکاری اسکولوں میں سامنے آتی ہیں۔ استاد پرویز خان کا کہنا ہے کہ ہر کلاس میں موجود بڑی تعداد میں طالبعلموں کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
پرویزخان” ہم ایسی سزا کے حق میں نہیں جو بچوں کیلئے جسمانی طور پر نقصان دہ ہو، مگر کوئی ایسی سزا ضرور ہونی چاہئے جو انکا رویہ درست رکھ سکے، اگر حکومت سزا پر پابندی لگانا چاہتی ہے، تو ہم اپنی کلاس میں موجود صرف چالیس فیصد بچوں کو ہی پڑھا سکیں گے۔ نجی اسکولوں میں بیشتر طالبعلموں کا تعلق اعلیٰ طبقے میں ہوتا ہے، جبکہ سرکاری اسکولوں میں زیادہ تر بچے غریب خاندانوں کے ہوتے ہیں، ان بچوں کو اپنے والدین سے اچھے روئیے کی مناسب تربیت نہیں ملتی”۔
تاہم ایک سرکاری اسکول کی چالیس سالہ استاد نادیہ خان جسمانی سزا کی مخالف ہیں۔
نادیہ خان” ایسے طریقہ کار موجود ہیں جس کے ذریعے طالبعلموں کو اساتذہ کا احترام سیکھایا جاسکتا ہے۔آج طالبعلم ہمارا احترام نہیں کرتے، ان پر میڈیا کا بہت اثر ہے، اب ہمارے معاشرے میں استادوں کے احترام کا تصور موجود نہیں رہا، والدین کو اپنے بچوں کو اساتذہ کا احترام کرنا سیکھانا چاہئے اور ان کا کردار بہتر بنانا چاہئے”۔
جسمانی سزا پر پابندی کے نئے بل کے بعد توقع ہے کہ پاکستانی بچوں کی زندگیاں بچائی جاسکیں گی، بابر خان یوسف زئی پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے سنیئر نائب صدر ہیں۔
بابر خان” کاپورال پنیشمینٹ ایکٹ سو ہزار تیرہ کا نفاذ اب ملک بھر میں ہوچکا ہے، جس کی خلاف ورزی پر قوانین کے مطابق سزا ملے گی۔ اب بچے پولیس سے تحفظ طلب کرسکتے ہیں، وہ پولیس اسٹیشن جاکر اپنے استاد کیخلاف مقدمہ درج کراسکتے ہیں”۔
دس سالہ یتیم بچہ منصف خان نے حال ہی میں ایک سرکاری اسکول میں داخلہ لیا ہے، تاہم وہ جسمانی سزا کے تصور سے خوفزدہ ہے۔
منصف خان ” بہت سے بچے اسکول سے بھاگ گئے ہیں جس کی وجہ تشدد بنا۔ بچے اس وقت رونے لگتے ہیں، جب ان کے کمر، سر یا جسم کے کسی اور حصے پر مارتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ میرے استاد ہمیں نہ مارے، اگر ہمیں سزا نہ ملے تو طالبعلم دلجمعی سے پڑھیں گے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |