Written by prs.adminAugust 31, 2012
(Pakistan Swat music) پاکستانی وادی سوات کی موسیقی
Asia Calling | ایشیا کالنگ . Entertainment Article
ماضی میں پاکستانی موسیقی اور ثقافت وادی سوات کی وجہ شہرت تھی۔ یہاں سے درجنوں گلوکار، موسیقار اور رقاص صوبہ خیبرپختونخواہ میں شہرت حاصل کر نے میں کامیاب ہوئے، تاہم طالبان دور میں فن ثقافت دم توڑنے لگا، مگر اب وہاں ایک بار پھر ثقافتی سرگرمیاں سر اٹھا رہی ہیں۔
یہ Bhanar گلی ہے، جو وادی سوات کے صدر مقام مینگورہ میں موسیقی پسندوں اور رقص کرنے والوں کا گڑھ سمجھی جاتی ہے۔ یہاں تنگ اور گرد سے اٹے گھر جابجا موجود ہیں۔ ایک گھر میں چودہ سالہ مسکان عزیز آج رات ہونیوالی شادی میں رقص کا مظاہرہ کرنے کیلئے ریہرسل کررہی ہے۔ باہر سرد شام اپنے سائے پھیلا رہی ہے تاہم مسکان گھنٹوں سے رقص میں مصروف ہونے کے باعث پسینے میں شرابور ہے۔
گھر کی دیواروں پر معروف پشتو گلوکاروں کی تصاویر لگی ہوئی ہیں، اور مسکان بھی ان کی طرح شہرت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ طالبان دور میں مسکان کو اس وقت اسکول چھوڑنا پڑا جب وہ پانچویں جماعت میں زیرتعلیم تھی۔2008ءمیں طالبان نے معروف پشتو گلوکارہ شبانہ کو قتل کیا تو مسکان اور اس کا خاندان وادی سے نقل مکانی کرگیا۔
شبانہ کو اس وقت قتل کیا گیا جب اس نے طالبان کے مطالبے اور دھمکیوں کے باوجود گلوکاری ترک کرنے سے انکار کردیا۔
جب فوج نے طالبان کو یہاں سے نکال باہر کیا تو مسکان اور یہاں سے جانیوالے دیگر خاندان آہستہ آہستہ گھروں کو واپس لوٹنے لگے۔ اب مسکان کی پوری توجہ موسیقی پر ہے اور اس نے اسکول نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مسکان اور اس کے والد نے گلوکاروں اور سازندوں کا ایک گروپ تشکیل دیا ہے جو شادیوں اور دیگر تقاریب میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ انہیں ہر ماہ پندرہ تقاریب میں مدعو کیا جاتا ہے، جس سے اس گروپ کو ماہانہ ساٹھ سے ستر ہزار روپے کی آمدنی ہوجاتی ہے، جس میں سے مسکان اور اس کے والد کا حصہ زیادہ ہوتا ہے۔
مسکان(female) “موسیقی میری روح اور میری زندگی ہے۔ ہمارے پاس موسیقی کے مہنگے آلات نہیں، بلکہ ہمیں بہت پرانے اور ناقص معیار کے آلات پر ہی گزارا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہم ساﺅنڈ سسٹم یا ریکارڈنگ کے لئے اسٹوڈیو خریدنے کے متحملنہیں ہوسکے۔ ہم تو بمشکل اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں، کیونکہ یہاں ہر چیز بہت مہنگی ہوگئی ہے”۔
اس وقت وادی سوات میں مسکان کی طرح پچاس گروپس سرگرم ہیں، اور موسیقی اس علاقے میں پھر جگہ بنانے لگی ہے۔
ایک معروف بازار نشاط کے قریب سی ڈیز اور کیسیٹیں فروخت ہورہی ہیں، یہ دکانیں ابھی حال ہی میں دوبارہ تعمیر ہوئی ہیں، جہاں پشتو گیتوں اور رقص وغیرہ کی سی ڈیز اور کیسیٹیں فروخت کی جارہی ہیں۔ طالبان نے ان دکانوں کو تباہ کردیا تھا یا انہیں صرف طالبان کے افکار کی سی ڈیز فروخت کرنے کی اجازت دی تھی، تاہم اب دکاندار جیسے ابراہیم خان کا کہنا ہے کہ کاروبار اچھا چل رہا ہے۔
دکاندار(male) “مارکیٹ کے مالکان نے طالبان کے دور میں سی ڈیز اور کیسیٹوں کی فروخت کیلئے دکانیں کرائے پر دینے سے انکار کردیا تھا، اس وقت یہاں بم دھماکے عام تھے۔ اس وجہ سے دکانداروں کو آمدنی کے حصول کیلئے دیگر کاروبار پر توجہ دینا پڑی، تاہم کچھ دکانداروں نے سی ڈیز کی خفیہ فروخت جاری رکھی۔ اب گزشتہ ڈیڑھ برس سے کیسیٹیں ایک بار پھر مقبول ہوگئی ہیں اور لوگ انہیں پھر سے خریدنے لگے ہیں۔ اب ہم روزانہ تین ہزار کیسیٹیں بھی فروخت کرلیتے ہیں”۔
مسکان کے گھر کے باہر اڑتالیس سالہ اکبر خان اپنی میوزک شاپ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ بھی گلوکاروں اور رقص کرنیوالے گروپس کی پرفارمنس کا کام کرتے ہیں، تاہم انکا کہنا ہے کہ طالبان کی سوچ ابھی بھی موجود ہے اور متعدد لوگ ثقافتی سرگرمیوں کو باعث شرم قرار دیتے ہیں۔
اکبرخان (male) “کئی بار لوگ ہماری خواتین رقاصاﺅں اور گلوکاراﺅں سے جنسی تعلق قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، میں انہیں کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری لڑکیاں اس کام کیلئے رقص نہیں کرتیں، ہم گلوکار ہیں اور یہ ہمارا پیشہ ہے۔ حقیقی گلوکار اس طرح کے خراب کام نہیں کرتے، چاہے انہیں سونے میں ہی کیوں نہ تول دیا جائے”۔
مسکان نے مستقبل کے حوالے سے بڑے منصوبے بنارکھے ہیں۔ وہ ایک البم بنانا چاہتی ہے تاہم ابھی اس کے پاس وسائل موجود نہیں۔
مسکان(female) “میری خواہش ہے کہ میں بیرون ملک جاکر موسیقی کی تعلیم حاصل کروں اور اپنی صلاحیتوں کو بہتر بناﺅں۔ اگر میں ایسا کرپائی تو بیرون ملک کم از کم ایک سال کسی اچھے ادارے میں وقت گزاروں گی، تاہم ہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ حکومت کو ہماری مدد کرنی چاہئے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply