Written by prs.adminJuly 7, 2013
Pakistan Islamic Body Rules Against Using DNA Test for Rape Cases – اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
جنسی زیادتی کے واقعات کیلئے دنیا بھر میں ڈی این اے ٹیسٹ کا استعمال عام ہے، مگر گزشتہ ماہ پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ اس طرح کے مقدمات کیلئے ڈی این اے ٹیسٹ کو مرکزی شہادت کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا، اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
ماہ رمضان کا آغاز ہونے والا ہے ، جس کے دوران مسلمان دوسروں کی زیادتیاں معاف کردیتے ہیں، مگر پچاس سالہ بریان اس شخص کو معاف کرنے کیلئے تیار نہیں جس نے ان کی بیٹی کو زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔
بریان”اگر میری بیٹی کسی حادثے میں ماری جاتی تو میں اس شخص کو معاف کردیتا، مگر میری بیٹی معصوم تھی، میں اسے زیادتی کا نشانہ بنانے والے درندے کو کسی صورت معاف نہیں کرسکتا”۔
ان کی بیٹی صرف دس سال کی تھی کہ اس کے ایک رشتے دار نے اسے زیادتی کا نشانہ بنایا، اس کی لاش کراچی کے ساحل پر پائی گئی۔ پولیس نے اس کے رشتہ دارکو گرفتار کرلیا اور ڈی این اے ٹیسٹ سے ثابت ہوگیا کہ اسی نے زیادتی کی ہے، یہ مقدمہ عدالت میں زیرسماعت ہے اور متاثرہ خاندان کو جلد فیصلہ آنے کی امید ہے، مگر حقوق نسواں کیلئے کام کرنے والی رخسانہ صدیقی کا کہنا ہے کہ متاثرہ لڑکی کو انصاف نہیں مل سکے گا۔
رخسانہ”وہ بچی اب دنیا میں نہیں رہی، تو صرف ڈی این اے ٹیسٹ ہی ملزم کے خلاف ٹھوس ثبوت ہے، مگر اب ہوسکتا ہے کہ عدالت ڈی این اے کو مرکزی شہادت کے طور پر نہ لے، جس کی وجہ اسلامی نظریاتی کونسل کی حالیہ رائے ہے، اگر ایسا ہوا تو ممکن ہے کہ اس قاتل کو رہائی مل جائے”۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی حالیہ سفارشات میں کہا ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ کو ثانوی شہادت کے طور پر ہی استعمال کیا جاسکتا ہے،کونسل کا کہنا ہے کہ زیادتی کے واقعات میں مرکزی شہادت موقع واردات کو دیکھنے والے چار مردوں کی گواہی کو ہی مانا جائے گا۔ حافظ محمد طاہر محمود اشرفی کونسل کے سنیئر رکن ہیں۔
محمد طاہر”ڈی این اے کے بارے میں ڈاکٹروں کی تین مختلف آراءہے، کچھ کہتے ہیں کہ یہ ٹیسٹ 98 فیصد تک ٹھیک ہوتے ہیں، کچھ اسی فیصد اور کچھ 75 فیصد درست قرار دیتے ہیں۔ ماضی میں ایک مشتبہ شخص کو ڈی این اے ٹیسٹ کی بنیاد پر پکڑا جاسکتا تھا اور پھر تفتیش کی جاتی تھی، مگر اسے گواہوں کے متبادل کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا تھا، اگر جبری زیادتی کے مقدمات تفتیش کے بعد زناءکے مقدمے کا روپ اختیار کرلیں تو پھر ہم مشتبہ شخص کو سزائے موت کیسے سناسکتے ہیں”۔
تاہم پولیس کی جانب سے ڈی این اے ٹیسٹ کو جنسی زیادتی کے مقدمات میں مرکزی شہادت کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، محمد وسیم اقبال ایک وکیل ہیں۔
محمد وسیم”زیادتی کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ، طبی شواہد اور متاثرہ فریق کے بیانات ملزم کو سزا دلانے کیلئے کافی ہوتے ہیں، پوری دنیا میں یہی قوانین لاگو ہیں”۔
متعدد انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے لئے کام کرنے والے گروپس نے کونسل کی حالیہ سفارشات پر تشویش ظاہر کی ہے، مہناز رحمان عورت فاﺅنڈیشن کی عہدیدار ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ اس سے جنسی مقدمات میں متاثر ہونے والی خواتین پر دباﺅ مزید بڑھ جائے گا، جن پر پہلے ہی معاشرے کی جانب سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مہناز رحمان”ہمیں سائنس اور طبی قانونی طریقہ کار کی مدد لینی چاہئے، آپ خود سوچ سکتے ہیں کوئی بھی ملزم چار مرد گواہوں کی موجودگی میں اس طرح کے جرم کا سوچ بھی نہیں سکتا، ایسا کون شخص ہوگا جو چار افراد کی موجودگی میں ایسا کرنے کی ہمت کرسکے؟”
گزشتہ سال سپریم کورٹ نے ڈی این اے ٹیسٹ کو جنسی زیادتی کے مقدمات میں مرکزی ثبوت قرار دیا تھا، مگر نظریاتی کونسل کی موجودہ سفارشات کے بعد اب پارلیمنٹ نے فیصلہ کرنا ہے کہ موجودہ قوانین میں تبدیلی کی جائے یا نہیں۔ سماجی کارکن حکومت پر دباﺅ ڈال رہے ہیں کہ کونسل کی سفارشات کو تسلیم نہ کرے، سندھ میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی کی رہنماءشرمیلا فاروقی کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ نے ان سفارشات پر عمل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
شرمیلا”ڈی این اے ٹیسٹ جنسی مقدمات میں لازمی ہونے چاہئے، دنیا بھر میں گواہوں کے مقابلے میں سائنسی اور فارنسک تفتیش کو زیادہ ترجیح دی جارہی ہے”۔
کچھ حلقے تو اسلامی نظریاتی کونسل کے ادارے کو ہی غیرضروری قرار دے رہے ہیں۔ زہرہ یوسف ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن ہیں۔
زہرہ یوسف”ہم نے اسلامی نظریاتی کونسل قائم کررکھی ہے، جس کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ قانون سازی کیلئے پارلیمنٹ موجود ہے اور آئین کا بھی کہنا ہے کہ اسلامی اصولوں کے برخلاف کوئی بھی قانون منظور نہیں کیا جاسکتا۔ تو میرے خیال میں اس ادارے کی کوئی خاص ضرورت نہیں، ماضی میں بھی ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ ادارہ قدامت پسند اور خواتین مخالف رائے رکھتا ہے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |