Pakistan acid victims struggling to face the world پاکستان میں تیزاب سے متاثرہ خواتین کی دنیا کا سامنا کرنے کی جدوجہد
Pakistan Acid Victims پاکستانی تیزاب سے متاثرہ خواتی
گزشتہ ماہ پاکستانی فلمساز شرمین عبید چنائے نے تیزاب پھینکے جانے سے متاثر ہونیوالی خواتین پر بنائی جانیوالی دستاویزی فلم پر پاکستان کیلئے پہلا آسکر ایوارڈ جیتا۔پاکستان جنوبی ایشیاءکا پہلا ملک ہے جہاں تیزاب سے حملے کے خلاف قوانین متعارف کرائے گئے ہیں۔
34 سالہ صابرہ سلطانہ کی آج شادی کی سالگرہ ہے۔مگر وہ اپنی شادی کو فراموش کردینا چاہتی ہیں۔
صابرہ(female)”میں اپنے ماضی کو یاد نہیں رکھنا چاہتی، کیونکہ میں اپنی زندگی کے برے دن یاد نہیں کرنا چاہتی”۔
وہ اس کی وجہ بتا رہی ہیں۔
صابرہ(female)”میرا شوہر احساس کمتری کا شکار تھا، کیونکہ وہ مجھ سے زیادہ بڑی عمر کا تھا۔ وہ ایک حاسد شخص تھا اور مجھے گھر کی چھت پر بھی نہیں جانے دیتا تھا، چاہے میں نے برقعہ ہی کیوں نہ پہن رکھا ہو۔ وہ مجھے تنہا کہیں جانے نہیں دیتا تھا اور خود بھی مجھے باہر لے کر نہیں جاتا تھا، جس کی وجہ میری خوبصورتی اور دوسرے مردوں کا مجھے دیکھنا تھا۔جہیز نہ لانے پر میرے سسرالی رشتے دار بھی مجھ سے خوش نہیں تھے۔ایک دن ان سب نے مجھ سے جھگڑا کیا اور پھر مجھے جلانے کی کوشش کی، اور یہ سب کچھ شادی کے ایک سال کے اندر ہوا”۔
صابرہ نے اپنا چہرہ برقعے میں چھپا رکھا ہے، کیونکہ ان کاچہرہ جل جانے کی وجہ سے بدنما ہوچکا ہے، جبکہ وہ صحیح طور سے بول بھی نہیں پاتیں۔ ان کی خوبصورت آنکھوںپر اس وقت مصنوعی پلکیں لگی ہوئی ہیں، جبکہ ان کی ناک کی بھی سرجری ہوئی ہے۔ صابرہ ان سینکڑوں خواتین میں سے ایک ہیں، جو تیزاب کے حملے یا مٹی کے تیل سے جلائے جانے کا شکار بنتی ہیں۔صرف شوہر حضرات ہی یہ جرم نہیں کرتے، بلکہ شادی کی درخواست مسترد ہونے پر بھی مرد ایسا کرتے ہیں۔وہ انتقامی طور پر اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ انہیں مسترد کرنے والی لڑکی کی کبھی شادی نہ ہوسکے۔14 سالہ ندا ملک اور ان کی سولہ سال بہن پر گزشتہ ماہ تیزاب پھینکا گیا تھا۔
ندا ملک(female)”ہم کارخانے سے گھر واپس آرہے تھے کہ اچانک موٹر سائیکلوںپر سوار افراد نے ہمارے اوپر تیزاب پھینک دیا۔ اصل میں ہماری ایک ساتھی عظمیٰ نے اپنے کزن کی جانب سے شادی کی درخواست مسترد کردی تھی، جس کے بعد وہ شخص اسے سبق سیکھانا چاہتا تھا،یہی وجہ ہے کہ اس نے عظمیٰ کو ہمارے ساتھ دیکھ کر تیزاب پھینک دیا۔ یہ ہمارے ساتھ ٹھیک نہیں ہوا”۔
پاکستان کے اندر حالیہ برسوں میں خواتین کے خلاف تشدد کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور ہر سال قتل، اجتماعی زیادتی، اغوا،زبردستی شادی کرانے اور تشدد کے واقعات سامنے آرہے ہیں، تاہم خواتین پر تیزاب پھینکنا انتقام لینے کا آسان اور سستا طریقہ بن چکا ہے۔ ندا کے والد نذیر ملک اپنی بیٹیوں کے مستقبل کا سوچ کر رو رہے ہیں۔
نذیرملک(male)”بیٹیوں کے ساتھ ہمیشہ محبت کا سلوک کیا جاتا ہے، مگر اب ہر شخص میری بیٹیوں سے شادی کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا، کیونکہ ان کے زخم ان کی زندگیوں پر ہمیشہ کے لئے بدنما داغ بن گئے ہیں”۔
وہ اپنی بیٹیوں کے زخم کا علاج کرانے کی استطاعت نہیں رکھتے، جس پر ہزاروں ڈالرز کا خرچہ آتا ہے، تاہم نجی ادارے ایسی متاثرہ خواتین کی مدد کا کام کررہے ہیں۔ مسرت مصباح ڈپلکیس سیلون کی سربراہ ہیں۔
مسرت مصباح(female)” 2003ءمیں ایک لڑکی میرے دفتر میں آئی، اس نے اپنا چہرہ برقعے میں چھپا رکھا تھا۔وہ شام کا وقت تھا اور میں دفتر سے نکل رہی تھی۔ لڑکی نے کہا کہ اسے میری مدد اور تعاون کی ضرورت ہے۔میرا خیال تھا کہ وہ یہاں مالی امداد کے حصول کیلئے آئی تھی، تاہم اس نے کہا کہ وہ اپنے چہرے کو ٹھیک کرانا چاہتی ہے۔ میں نے اس لڑکی کا چہرہ دیکھا جہاں اس کی ناک کی جگہ ایک گڑھا تھا، اس کی گردن اور تھوڑی ایک لگ رہی تھی، اس وقت جیسے میری ٹانگوں سے جان ہی نکل گئی اور میں گرگئی۔ اس واقعے کے بعد میں نے ایسی لڑکیوں کیلئے کام شروع کردیا، کیونکہ وہ لڑکی مجھے بیوٹیشن سمجھ کر اپنا چہرہ ٹھیک کرانے آئی تھی”۔
مسرت نے Depilex Smile Again نامی منصوبہ شروع کیا، جس کے ذریعے تیزاب سے متاثرہ اور مٹی کے تیل سے جلائے جانیوالی خواتین کے علاج کا کام کیا جاتا ہے۔ اس منصوبے کے لئے مسرت کو ابتدائی فنڈز اپنے خاندان اور دوستوں سے ملا۔ اب تک مسرت تین سو زائد لڑکیوں کا مفت علاج کراچکی ہیں اور انہیں ملازمت اور پناہ کے حصول میں بھی مدد کرچکی ہیں۔ اگرچہ متعدد متاثرین کو سب کچھ دوبارہ واپس مل چکا ہے، مگر وہ انصاف سے تاحال محروم ہیں، عدالتی کارروائی طوالت اختیار کرلیتی ہے، جبکہ پولیس بھی ایسے مقدمات میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھاتی۔
تیزاب کے حملے سے متاثرہ سولہ سالہ انعم احمد لاہور میں ڈپلیکس بیوٹی سیلون میں کام کرتی ہیں، اس وقت ان کے دفتر میں دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہے۔کل وہ پچاس کلومیٹر دور اپنے آبائی قصبے میں جائیں گی جہاں انکا مقدمہ زیرسماعت ہے۔
انعم(female)”کل میں اپنے قصبے میں جاکر دو یا تین گھنٹے عدالت میں گزاروں گی، میں ملزمان کو نئے قوانین کے تحت چودہ سال قید کی سزا دلوانا چاہتی ہوں، میرے لئے ہر بار اتنا طویل سفر کرنا بہت مسکل ہوتا ہے، مگر جب بھی عدالت جاتی
ہوں تو کیس آئندہ سماعت کے لئے ملتوی کردیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ ملزمان کی جانب سے وکیل کی خدمات حاصل کرنا نہ ہوتا ہے۔ ملزم کو توقع ہے کہ وہ تاخیری حربے اختیار کرکے مجھے عدالت کے باہر تصفیے پر تیار کرلے گا۔ مجھے انصاف ملنے کی توقع نہیں، اگر اس ملک میں انصاف ہوتا تو صورتحال ایسی نہ ہوتی”۔
انسانی حقوق کے اداروں کی شدید تنقید کے بعد پارلیمنٹ نے گزشتہ سال دسمبر میں ایک نیا قانون منظور کرتے ہوئے تیزاب پھینکنے والے افراد کی سزاﺅں میں اضافہ کردیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ نئے قانون کی ضرورت تھی۔ رکن پارلیمنٹ خلیل طاہر پنجاب اسمبلی میں قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کے رکن ہیں۔
خلیل طاہر(male)”عالمی سطح پر اس طرح کے واقعات کا اچھا اثر نہیں پڑتا، تاہم اب ایسے سفاک افراد کے خلاف انسداد دہشتگردی کی دفعات کا اطلاق ہوگا، اب جو بھی قانون کو ہاتھ میں لے گا خصوصاً خواتین کو ذاتی انتقام کا نشانہ بنائے گا اسے سخت ترین سزا کا سامنا کرنا ہوگا”۔
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے تیزاب پھینکے جانے والے واقعات میں متاثر ہونیوالی خواتین کے مفت علاج معالجے کا اعلان کیا تھا، انھوں نے متاثرین کے لئے نئے قوانین کے تحت تیز رفتار انصاف کی فراہمی کی بھی یقین دہانی کرائی۔ تاہم نذیر ملک کی بیٹیوں کو تاحال حکومتی امداد نہیں مل سکی ہے۔
نذیرملک(male)”سیاستدان یہاں آئے اور ہمارے ساتھ مفت علاج کے وعدے کرکے چلے گئے، مگر عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہوسکا۔ میں اپنی ملازمت سے فارغ ہوچکا ہوں کیونکہ مجھے عدالتوں اور ہسپتالوں کو چکر لگانا پڑ رہے ہیں۔ میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کی آمد اور ان کی مدد کا منتظر ہوں”۔
ممتاز مغل انسانی حقوق کےلئے کام کرنیوالی معروف کارکن ہیں۔وہ بھی وزیراعلیٰ سے اقدامات کا مطالبہ کرتی ہیں۔
ممتازمغل(female)”حکومت کے پاس پاکستان میں خواتین پر ہونیوالے تشدد کے اعداد و شمار جمع کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ خواتین دوست قانون سازی پہلا اچھا قدم ہے لیکن ہمیں مدد فراہم کرنیوالے میکنزم کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر کام کرنے کی جگہ پر ہراساں کئے جانے یا تیزاب کے حملوں کے حوالے سے قانون سازی کی گئی ہے، یہ اچھے اقدامات ہیں، لیکن ہمارے پاس ایسا ڈھانچہ موجود نہیں جو اس قانون سازی کو عملی شکل دے سکے۔ہمیں عدلیہ کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ وہاں خواتین ججوں کی تعداد ناکافی ہے، جبکہ مرد جج خواتین کے مقدمات کو بہت زیادہ توجہ نہیں دیتے۔آخر میں، میرا کہنا ہے کہ نگرانی کا میکنزم لازمی امر ہے، کیونکہ موثر نگرانی کے بغیران قوانین کو لاگو نہیں کیا جا سکتا”۔
گزشتہ ماہ ایک پاکستانی فلمسازشرمین عبید چنائے نے خواتین کے بارے میں بنائی گئی دستاویزی فلم کے لئے آسکر ایوارڈ جیتا ہے، یہ فلم ان خواتین کے بارے میں تھیں، جن کے چہروں پر تیزاب پھینک دیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنا ایوارڈ متاثرہ خواتین اور ان کی بحالی کے لئے کام کرنیوالے افراد کے نام کیا تھا۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply