Written by prs.adminFebruary 26, 2013
No Time For Play: Tuition in Burma-برما کا تعلیمی نظام
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
برما نے گزشتہ سال اپنے قومی بجٹ کا پانچ فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کیا، جوکہ دفاعی بجٹ سے تین گنا کم ہے۔ برمی والدین کو اسکولوں میں اساتذہ پر تحفظات ہیں اور ان کے خیال میں بچے مشکلات کا شکار ہیں۔اسی وجہ سے بچوں کو اسکولوں کے بعد اضافی ٹیوشن پڑھنا پڑھتی ہے۔
بارہ سالہ Aung Moe Tha اسکول جانے سے پہلے اپنا بیگ پیک کررہا ہے اور ناشتہ کررہا ہے۔ اسکی ماں نے الوداع کہتے ہوئے اسے لنچ باکس دیا۔
اسکول میں پورا دن گزارنے کے بعد Aung Moe Tha دیگر بہت سے بچوں کی طرح ٹیوشن سینٹر کا رخ کررہا ہے۔
سوال”ٹیوشن پڑھانے والے استاد کیا آپ کو اسکول میں بھی پڑھاتے ہیں؟
اونگ موئی تھا “ نہیں، وہ دوسرے استاد ہیں”۔
سوال”آپ اپنے اسکول کے استاد کے پاس کیوں نہیں؟
اونگ موئی تھا “ وہ بہت دور رہتے ہیں، اگر وہ قریب آجائیں تو میں ضرور ان کے پاس جاﺅں گا”۔
اونگ موئی تھا کے خاندان نے حال ہی میں گھر تبدیل کیا ہے، جس کے بعد اس کی ماں Mon Mon Myat کا کہنا ہے کہ اسکے بیٹے کی تعلیمی کارکردگی زوال کا شکار ہوئی ہے۔
مون مون میت” ماہانہ امتحانات میں وہ ہمیشہ ریاضی میں سو نمبر لیتا تھا، مگر جب سے ہم یہاں آئے ہیں اور اس نے دوسری ٹیوشن کلاس میں جانا شروع کیا ہے، اس کی کارکردگی ماضی کے مقابلے میں خراب ہوگئی ہے۔ میں نے اس سے پوچھا بھی کہ آخر ہوا کیا ہے، تو اسکا کہنا تھا کہ وہ امتحانات میں سو نمبر اس وقت سے حاصل کرتا تھا کہ اس کے پرانے استاد اسے امتحانات سے پہلے ہی سوالات کے بارے میں بتادیتے تھے”۔
مجھے اسکول کے بعد ٹیوشن جانے سے پہلے Aung Moe Tha پیانو بجا رہا ہے۔
اونگ موئی تھا “ میں زیادہ سمجھ نہیں آتا مگر ٹیوشن کے اندر میں نصاب کو اچھی طرح سمجھ لیتا ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹیوشن میں مجھے کافی وقت ملتا ہے، جبکہ وہاں میرے بہت ساتھی اسکول میں بھی میرے ساتھ پڑھتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ میں ٹیوشن پڑھتا ہوں تاکہ اپنا سبق صحیح طرح سمجھ سکوں”۔
حالیہ اصلاحات کے باوجود برمی تعلیمی نظام کی کارکردگی زوال پذیر ہے، ایک کروڑ اسی لاکھ برمی بچوں میں سے نصف سے بھی کم پرائمری اسکول تک تعلیم حاصل کرپاتے ہیں، جبکہ پچاس فیصد اساتذہ ہی تربیت یافتہ ہیں۔جو والدین اپنے بچوں کو تعلیمی میدان میں اچھا دیکھنا چاہتے ہیں، وہ ٹیوشن کے نام پر اضافی رقم خرچ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سات سالہ Phyu Phyu پہلی جماعت کی طالبہ ہے۔
سوال”اس وقت آپ کہاں سے آرہی ہیں؟
پھیو “ ٹیوشن سے”۔
سوال”ٹیوشن سے کب چھٹی ملتی ہے؟
پھیو “ شام چھ بجے”۔
سوال”کیا ٹیوشن میں آپ کی ٹیچر اسکول سے ہی تعلق رکھتی ہیں یا کوئی اور ہیں؟
پھیو “وہ ہمارے اسکول کی ہیں، وہ پہلی جماعت کو پڑھاتی ہیں، انھوں نے برمی ادب میں ڈگری لے رکھی ہے”۔
سوال”یعنی آپ کی ٹیچر ہی ٹیوشن کی بھی انچارج ہیں؟
پھیو “ جی ہاں”۔
پھیو بھی ٹیوشن پڑھتی ہے، ان کے اسکول کے اساتذہ ہی اسے ٹیوشن پڑھاتے ہیں،اسکول اور ٹیوشن کے درمیان پھنسنے کی وجہ سے وہ کھیلنے کیلئے بھی وقت نہیں نکال پاتی۔ ڈاکٹر Thein Lwin این ایل ڈی ایجوکیشنل کمیٹی کے رکن ہیں۔
تھن لیون “ دل لگا کر پڑھی ہوئی چیز کو بھلانا آسان نہیں، مگر اس طرح کی تعلیم کا اطلاق حقیقی زندگی، ملازمت یا پیشہ ور زندگی میں نہیں ہوسکتا”
بڑی جماعتوں کے طالبعلم خود پر زیادہ دباﺅ محسوس کرتے ہیں، فرسٹ ائیر کے طالبعلم Thaw Zin Tun کا تو یہی ماننا ہے۔
تھا زین تو” میں ٹیوشن لینے پر مجبور ہوں کیونکہ اسکولوں میں پڑھائی کا معیار بہتر نہیں، جبکہ اسکولوں میں ہجوم بھی بہت زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اساتذہ کی بات کو کئی بار سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے”۔
ڈاکٹر تھین لیون کے خیال میں پرہجوم کلاس رومز، غیر تربیت یافتہ اساتذہ اور ناکافی وسائل کے باعث برمی تعلیمی نظام زوال پذیر ہورہا ہے۔
ڈاکٹر تھین لیون “عام طور پر ہر کلاس روم میں اسی سے سو طالبعلم ہوتے ہیں، جبکہ اساتذہ کی تعداد بہت کم ہے۔ اس مسئلے کے حل کیلئے مزید کمرے تعمیر کئے جانے کی ضرورت ہے، تاکہ ہر کمرے میں کم طالبعلموں کو پڑھنے کا موقع ملے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں اصلاحات کے دوران کلاس رومز کی لمبائی پر نظرثانی کی ضرورت ہے، ایک استاد تیس طالبعلموں کو آرام سے پڑھاسکتا ہے، اس طرح کلاسیں زیادہ متحرک بھی ہوسکیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ میں کلاس رومز کے ڈیزائن پر نظرثانی کا حامی ہوں”۔
فوجی حکومت کے دوران میں فوج کی منظوری سے ہی نصاب پڑھایا جاتا تھا، جبکہ یونیورسٹیوں کو بند کردیا گیا تھا۔ مگر اب ملک میں اصلاحاتی عمل جاری ہے اور تعلیمی نظام پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔ حکومت نے رواں برس تعلیم کیلئے بجٹ بھی بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، صدر Thein Sein کا کہنا ہے کہ غیرملکی قرضوں میں کمی کے بعد اب ہم تعلیم کے شعبے پر زیادہ خرچ کریں گے۔
تھین سین” تعلیمی اصلاحات برمی سیاسی اصلاحات، اقتصادی اصلاحات اور معاشرتی اصلاحات جیسی ہی اہم ہیں، تعلیم یافتہ نوجوان ملک میں معیشت کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرسکتے ہیں، اور ملکی ترقی کیلئے مرکزی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے تعلیمی شعبے پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس پر مزید فنڈز خرچ کئے جائیں گے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply