Written by prs.adminAugust 6, 2013
No Room for Tainted Politicians in India – بھارتی برے سیاستدانوں کی شامت
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
بھارتی سپریم کورٹ نے حال ہی میں تاریخ ساز فیصلہ سناتے ہوئے اس قانون کو کالعدم قرار دیدیا ہے جس کے تحت فوجداری مقدمات میں ملوث سیاستدانوں کو اپنے عہدوں پر رہنے کا اختیار مل جاتا تھا، اس فیصلے کا کافی خیرمقدم کیا جارہا ہے تاہم سیاسی جماعتیں ناخوش ہیں۔ اسی بارے میں سنتے ہیںکی آج کی رپورٹ
ستاسی سالہ للی تھامس نے آٹھ برس قبل خراب سیاستدانوں کو انتخابات میں کھڑا ہونے سے روکنے کیلئے درخواست دائر کی تھی۔
للی تھامس”عدلیہ کو کسی بھی صورت جرائم پیشہ اور کرپٹ پس منطر رکھنے والے افراد کو عوامی نمائندگی کا اہل قرار نہیں دینا چاہئے، ہمیں سمجھنا چاہئے کہ کرپشن، جرائم پیشہ عناصر، کمزوریاں اور دیگر خرابیاں کو سختی سے مسترد کیا جانا چاہئے، انتطامیہ کی صفائی کیلئے سپریم کورٹ نے تاریخ ساز فیصلہ سنایا ہے”۔
للی تھامس کا کہنا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کی سیاست میں آمد ایک خطرناک رجحان ہے۔
للی تھامس”ہمیں اپنی جمہوریت کا انداز بدلنا ہوگا، یہ براہ راست انتخابات، یہ کالا دھن، غیر مناسط فطرت کے افراد کا اہم ذمہ دار پوزیشنز پر قبضہ اور غیر مناسب افراد کا اقتدار میں آنا ہمارے ملک کو کمزور اور تقسیم کررہا ہے”۔
اس وقت ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے ایک چوتھائی سے زائد اراکین کو فوجداری مقدمات کا سامنا ہے، ایک این جی او ایسوسی ایشن ٓد ڈیموکریٹک ریفارمز کے مطابق ایک سو سے زائد اراکین پر سنگین جرائم جیسے قتل اور عصمت دری کے الزامات ہیں۔جگ دیپ چھوکر اس این جی او کے سربراہ ہیں۔
جگ دیپ”یہ لوگ ہمارے لئے تو قوانین بناتے ہیں مگر خود ان پر عمل کرنے کیلئے تیار نہیں، انکا خیال ہے کہ وہ قوانین سے بالاتر ہیں، تمام سیاسی جماعتیں انتخابی اصلاحات کے خلاف متحد ہیں”۔
عدالتی حکم میں ریپریسینٹیشن آف پیپلز ایکٹ کو کالعدم قرار دیا گیا، جس کے تحت سیاستدانوں کو ماتحت عدلیہ سے ملنے والے سزا کیخلاف اپیل کے فیصلے تک انتخابات میں حصہ لینے یا عوامی عہدہ رکھنے کا حق حاصل تھا، مگر اب وہ کسی بھی سطح کی عدالتی سزا کے بعد اپنے عہدے یا انتخابات میں لڑنے کیلئے نااہل قرار پائے گئے۔مانیش ساسودیاکرپشن کیخلاف کام کرنے والے ایک رضاکار ہیں۔
مانیش”سپریم کورٹ نے اس قانون میں متعارف کرائے گئے امتیازی روایت کو ختم کردیا ہے، یہ قانون منتخب نمائندے کو استثنیٰ فراہم کرتا تھا اور وہ خود کو بھگوان کے برابر سمجھنے لگتے تھے، اور سوچتے تھے کہ وہ جو مرضی کرسکتے ہیں۔ اب انہیں عام شہریوں کے برابر کھڑا کردیا گیا ہے اور انہیں اسی طریقہ کار اور نظام کی خرابیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا سامنا عام افراد روزانہ کرتے ہیں، اس طرح انہیں عوام کے درد کا احساس ہوسکے گا”۔
تاہم کانگریس اور بی جے پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے قانون کے ممکنہ غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کای ہے۔ میناکشی لیکھی بی جے پی کی ترجمان ہیں۔
میناکشی”اس قانون کا سیاستدانوں اور قانون کی اطاعت کرنے والے افراد کیخلاف غلط کافی تشویشناک معاملہ ہے، ہمیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کیونکہ اس فیصلے پر عملدرآمد کا غلط استعمال بھی جائز قرار دیدیا گیا ہے، اور اپوزیشن جماعتوں کو ہراساں کرنے کیلئے بھی اسے استعمال کیا جاسکتا ہے”۔
عدلیہ سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر خوش نہیں، سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کتجو کے خیال میں عدالت نے اس فیصلے میں اپنے اختیار سے تجاوز کیا ہے۔
کتجو”قانون سازی عدلیہ کا کام نہیں، یہ قانون سازوں کا کام ہے، مگر اس فیصلے میں عدالت نے اپنی حد سے باہر جاکر خود ایک قانون بنادیا ہے۔ عدالتیں قانون کی وضاحت اور عملدرآمد کیلئے ہوتی ہیں، انہیں بنانے کیلئے نہیں”۔
سنیئر صحافی گر دیپ سنگھ کا کہنا ہے اس سے سیاستدانوں کے حق اپیل کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
گردیپ”متعدد فیصلے اپیل کے مرحلے میں واپس ہوجاتے ہیں، تاہم اگر اب عوامی نمائندے کو ماتحت عدلیہ سے سزا ہوئی تو وہ نااہل قرار پاجائے گا، اور پھر کچھ عرصے بعد اعلیٰ عدلیہ میں وہ بری ہوجاتا ہے تو پھر؟ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اس معاملے میں انفرادی سطح پر حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہورہی ، بلکہ ان افراد کی بھی حق تلفی ہورہی ہے جن اپنے نمائندوں کو چنتے ہیں”۔
کچھ سیاستدانوں کے خیال میں عدالتی فیصلے کا احترام کیا جانا چاہئے اور اس سے آئندہ برس عام انتخابات سے قبل اصلاحات کا موقع بھی ملے گا۔ امرجیت کور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سنیئر رہنماءہیں۔
امرجیت کور”الیکشن کمیشن نے بھی کافی کوششیں کیں، مشاورت کی، اور مختلف معاملات پر تجاویز پیش کیں، مگر عملی طور پر کچھ نہ ہوسکا۔ آج عدالتی فیصلے کی بدولت کم از کم ہم اس معاملے پر بحث تو کررہے ہیں۔ یہ بحث ملک بھر میں جاری ہے، اگر عدالتیں مداخلت کرتی ہیں، تو سیاسی جماعتوں کو اسے تسلیم کرتے ہوئے اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہئے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |