Written by prs.adminMay 26, 2013
No Light at the End of the Tunnel for Pakistan’s Coal Miners – پاکستانی کان کن
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
صوبہ بلوچستان معدنیات وسائل سے مالامال ہے، تاہم یہاں کے کان کنوں کو کام کے دوران تحفظ کے خراب معیار اور کانوں میں ہوا کی آمدورفت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ رواں برس جنوری میں میتھین گیس کے دھماکے سے آٹھ کان کن ہلاک ہوگئے تھے، مگر یہاں لوگوں کو متبادل روزگار بھی دستیاب نہیں۔اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
یہ کوئلے کی کان میں کام کرنے والوں کیلئے معمول کے دن کا آغاز ہے، سترہ سالہ طارق خان کوئلے سے بھری بیل گاڑی کو لیکر آرہا ہے، وہ ایک کوئلے کی کان میں کام کرتا ہے اور روزانہ تین سو روپے تک کما لیتا ہے۔
طارق خان”میرے والد کی عمر ساٹھ سال ہے، ہم بہت غریب ہیں اور ہمارے مالی حالات بہت خراب ہیں، میں گزشتہ تین برس سے یہاں کام کرکے اپنے خاندان کا پیٹ پال رہا ہوں، میرے والد نے بھی میری عمر میں اس کوئلے کی کان میں کام شروع کیا تھا، ہمارے خاندان کی تمام نسلیں اسی کان میں کام کرتی رہی ہیں”۔
یہ ایک خطرناک کام ہے، یہاں ہوا کے اخراج کا مناسب نظام موجود نہیں،چھ سو میٹر زیرزمین کام کرنے کے دوران صرف ورکرز کو ہی سیفٹی لائٹس کی سہولت میسر آتی ہے۔ کان کن آکسیجن ماسک نہیں پہنتے اور ہنگامی حالات کیلئے ابتدائی طبی امداد کی سہولت بھی میسر نہیں۔
رواں برس جنوری میں ایک گیس دھماکے سے آٹھ کارکن ہلاک ہوگئے تھے، اس وقت دو سو افراد اس زیرزمین کان میں کام کررہے تھے،اسی طرح کا سب سے بدترین واقعہ 2011ءمیں پیش آیا، جب درجنوں کان کن ایک کان کے اندر پھنس گئے تھے اور ان میں سے کسی کو بچایا نہیں جاسکا، جبکہ اسی برس تیس مختلف واقعات میں سو کے قریب کان کن ہلاک ہوگئے تھے۔ چالیس سالہ خالد خان آفریدی گزشتہ بیس سال سے یہ کام کررہے ہیں، وہ اب تک اپنے متعدد دوستوں کو مرتا دیکھ چکے ہیں۔
خالد خان آفریدی”ایک قریبی کان میں 48 افراد ہلاک ہوئے اور ان کی لاشیں ایک ہفتے تک وہیں پڑی رہیں۔ ہم انہیں بمشکل نکال کر لائے اور ہم نے دیکھا کہ ان کے جسموں سے گوشت غائب ہوچکا تھا، وہ جل کر خاک ہوچکے تھے، میں اپنی زندگی کے بارے میں فکرمند رہتا ہوں، میری کان بھی محفوظ نہیں، مگر کیا کروں غربت کے باعث مجھے وہاں کام کرنا پڑتا ہے”۔
دو ہزار گیارہ کے حادثات کے بعد صوبائی حکومت نے ایک بل کی منظوری دی تھی، جس کے تحت کوئلے کی کانوں میں کام کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے فنڈز الاٹ کئے گئے ، حکومت نے ورکرز کے تحفظ کیلئے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد بھی لازمی قرار دیا،تاہم اب تک ان اصلاحات پر عمل نہیں ہوسکا ہے۔
صوبے بھر میں ڈھائی سو کے قریب کوئلے کی کانیں موجود ہیں، جن میں ساٹھ ہزار افراد کام کرتے ہیں، یہ کان کن روزانہ بارہ گھنٹے تک کام کرکے تین سو سے پانچ سو روپے تک کما لیتے ہیں، تاہم صوبے کے خراب حالات اور شرپسندوں کی کارروائیوں کے باعث ان کان کنوں کے پاس متبادل روزگار کے مواقع بہت محدود ہیں۔ فضل حق بلوچستان یونیورسٹی میں ایم ایس سی کے طالبعلم ہیں۔
فضل حق”میں نے متعدد ملازمتوں کے لئے درخواستیں دیں تاہم کوئی ریفرنس یا حکومتی عہدیداران سے تعلق نہ ہونے کے باعث کچھ نہیں ہوسکا، میں حکومتی ملازمت حاصل نہیں کرسکتا، یہی وجہ ہے کہ میں رات کو ایک کوئلے کی کان میں کام کرتا ہوں اور دن میں پڑھتا ہوں، میں انتہائی مشکل حالات میں تعلیم حاصل کررہا ہوں اور یہاں متعدد لڑکے غربت کے باعث محض میٹرک تک ہی پڑھ پاتے ہیں”۔
باسٹھسالہ عبدالخالق گزشتہ چار دہائیوں سے کانوں کے اندر کام کررہے ہیں، اب اپنی خراب صحت کے باعث وہ ایک سیکیورٹی گارڈ کے طور پر کام کررہے ہیں۔
عبدالخالق”میں 1965ءسے کوئلے کی کانوں میں کام کررہا ہوں، مگر اب میں اس کے اندر کام نہیں کرسکتا، کیونکہ مجھے بہت درد ہوتا ہے اور سانس لینے میں بھی مشکل ہوتی ہے۔ سینے کے درد کے باعث میں بہت زیادہ تیز چل نہیں سکتا، بلکہ مجھ سے تو اب تنہا چلا بھی نہیں جاتا۔اللہ ہی مجھے شفا دے گا”۔
وہ ماہانہ ساڑھے پانچ ہزار روپے کمالیتے ہیں جو خوراک اور ادویات پر خرچ ہوجاتے ہیں۔ یہ کانیں شہروں سے کافی دور ہیں، یہی وجہ ہے کہ مریضوں کو طبی مراکز پہنچانے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
اس کان سے قریبی دیہی طبی مرکز دس کلومیٹر دور واقع ہے، یہاں سرکاری طور پر تو دو ڈاکٹرز تعینات ہیں، تاہم اس وقت ان
دونوں میں سے کوئی بھی موجود نہیں۔ سید محمد حسن شاہ طبی ٹیکنیشن ہیں، تاہم ڈاکٹروں کی عدم موجودگی میں وہ مریضوں کا علاج بھی کرتے ہیں۔
سید محمد حسن”کوئلے کی کانوں کے ورکرز کو عام طور پر سینے میں درد کی شکایت پوتی ہے، ہمارے پاس ادویات موجود نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم انہیں کسی اور ہسپتال بھجوا دیتے ہیں، ہم صرف معمولی زخموں کا ہی علاج کرتے ہیں”۔
اس وقت دوپہر کے کھانے کا وقت ہوچکا ہے اور طارق خان اپنے گھر جارہا ہے۔
گھر کے اندر طارق کی نوسالہ بہن صنم گل دوپہر کا کھانا تیار کررہی ہے، جو کہ ایک روٹی کے ٹکڑے اور بغیر دودھ کی چائے پر مشمتل ہے۔ یہ دونوں بہن بھائی اپنے والد کے ساتھ مقیم ہیں۔
صنم گل”میری والدہ سوات میں میری نانی کا خیال رکھنے کے لئے گئی ہوئی ہیں، ان کو وہاں گئے ہوئے تین ماہ ہوچکے ہیں، ہمارے پاس ابھی اتنے پیسے نہیں کہ انکی گھر واپسی کیلئے بس ٹکٹ خرید سکیں”۔
طارق یہ ملازمت چھوڑنا چاہتا ہے۔
طارق”ہر شخص کا ایک خواب ہوتا ہے اور میرا خواب ہے کہ یہاں سے نکل کر کوئی اور ملازمت کروں، جہاں مجھے آرام کیلئے بھی وقت ملے۔ یہ بہت سخت کام ہے، مجھے بہت صبح جانا پڑتا ہے اور رات گئے تک کام کرنا پڑتا ہے۔دولت اور تعلیم کسی کی زندگی بدل سکتا ہے مگر یہ دونوں میسر نہیں، تو لگتا ہے کہ مجھے اپنے والد کی طرح مرنے تک یہی کام کرنا پڑے گا۔ کوئی بھی شخص یا حکومت نے ہمارے لئے کچھ بھی نہیں کیا، میں اپنی زندگی میں تبدیلی کیلئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے معجزے کا منتظر ہوں”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |