Written by prs.adminMay 3, 2013
Nepal’s First HIV School – نیپال کا پہلا ایچ آئی وی اسکول
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
نیپال میں ایسے بچے جو ایچ آئی وی وائرس کے شکار ہوں، کو تعلیمی اداروں میں داخلے دینے سے انکار کردیا جاتا ہے۔ ایڈز سے متعلق غلط فہمیوں کے باعث بیشتر اسکول ایسے مریض بچوں کو داخلہ دینے سے ہچکچاتے ہیں۔اس خلاءکو بھرنے کے لئے ایک نجی اسکول نے ان مریض بچوں کیلئے ایک اسکول سبھلتا ایچ آئی وی شکشا سادن قائم کیا ہے۔ اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ۔
یہ ایچ آئی وی وائرس کے شکار بچوں کے اسکول میں صبح کا آغاز ہے، کھانے کے کمرے میں ناشتے کے بعد یہ بچے اپنی دوا لے رہے ہیں۔
بہت سے بچے کھیل رہے ہیں مگر نوسالہارمیلا اریال کی طبیعت آج کچھ بہتر نہیں۔ گزشتہ شب اس نے اپنی ماں کو خواب میں دیکھا تھا یہی وجہ ہے کہ وہ اب اپنی ماں کو خط لکھنا چاہتی ہے۔
ارمیلا کی ماں کی کھٹمنڈو سے چھ سو کلومیٹر دور رہتی ہے، ان دونوں کا ملاپ سال میں ایک دفعہ ہی ہوتا ہے۔
ارمیلا”میرے والد کافی برسوں تک نئی دہلی میں کام کرتے رہے، جب وہ واپس گھر آئے تو ان سے ایڈز کا وائرس میری والدہ میں منتقل ہوگیا، جس کے بعد وہ حاملہ ہوئیں تو میں بھی اس موذی مرض کا شکار بن گئی”۔
وہ ہرشخص کو یہ بات نہیں بتاتی، تاہم جب وہ اپنے علاقے کے ایک اسکول میں پہلی جماعت میں زیرتعلیم تھی تو اسے اسکول چھوڑ دینے کا کہا گیا۔
ارمیلا”میں اسکول میں اکثر ایڈز سے متعلق اے وی آر ادویات لیتی تھی، تاہم جب میرے دوست اس بارے میں پوچھتے تو میں کہتی کہ یہ سردرد کی ادویات ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ اگر کسی شخص کو میری بیماری کا پتا چلا تو مجھے اسکول چھوڑنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے دوستوں سے جھوٹ بولتی رہی، مگر ایک دن میری پرنسپل نے مجھے بلایا اورکہا کہ تم ایڈز کی مریضہ ہو لہذا اسکول سے نکل جاﺅ”۔
اس دن کے بعد سے کافی عرصے تک اسکول کے دروازے ارمیلا کیلئے بند رہے۔ پھر جب راجکمار پن اواوما گورونگ نے ارمیلا کی کہانی ایک اخبار میں پڑھی تو وہ اسے اپنے اسکول میں لے آئے۔
دس بچے اس اسکول میں قائم ہوسٹل میں مقیم ہیں، جن کی عمریں تین سے دس سال کے درمیان ہیں۔ دتا رام بچوں کو پڑھانے میں مصروف ہیں، انھوں نے اس اسکول میں پڑھانے کیلئے اپنی پرانی ملازمت کو چھوڑا تھا۔
دتارام”میں ایک اور دفتر میں کام کرتا تھا، مگر جب مجھے اس اسکول کا پتا چلا تو میں یہاں آیا اور بہت متاثر ہوا۔ یہ بہترین ملازمت ہے، یعنی ایسے بچوں کو پڑھانا جنھیں معاشرہ قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ دولت ہی زندگی میں سب کچھ نہیں، یہ ایک سماجی خدمت ہے۔ میں یہاں کام کرکے بہت خوش ہوں”۔
یہ نیپال میں اپنی طرز کا پہلا اسکول ہے، اٹھائیس سالہ راجکمار پن اس کے بانی اور صدر ہیں۔
راجکمار”دیگر اسکولوں نے ان بچوں کو داخلہ دینے سے انکار کردیا تھا، انکا کہنا تھا کہ اگر وہ ایڈز کے مریضوں کو داخلہ دیں گے تو ان کا کاروبار متاثر ہوگا۔ یہاں تک کہ سرکاری اسکولوں میں بھی ان بچوں کو داخلہ نہیں ملتا تھا”۔
دس سالہ منجو چاند کی زندگی بہت سخت گزری ہے۔
منجو”والدین کی وفات کے بعد میری خالہ مجھے اپنے گھر لے گئیں۔ اس گاﺅں کے رہائشی اپنے بچوں کو میرے ساتھ کھیلنے سے روکتے تھے، اور کہتے تھے کہ میں ایڈز کی مریضہ ہوں۔ میں نے جب یہ سنا تو میرا دل ٹوٹ گیا اور میں رونے لگی۔ میری خالہ کہنے کو تو میری پرورش کررہی تھیں مگر حقیقت میں وہ مجھ سے نفرت کرتی تھیں”۔
منجو کی بڑی بہن اس اسکول کے قریب رہائش پذیر ہے مگر وہ کبھی اس سے ملنے نہیں آتی۔
منجو”وہ میرے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھی کیونکہ وہ بھی مجھ سے محبت نہیں کرتی۔ گزشتہ برس اس نے یہاں آکر مجھے ایک تہوار کیلئے گھر لیکر جانے کا وعدہ کیا تھا، مگر وہ نہیں آئی۔ میرے رشتے دار مجھ سے نفرت کرتے ہیں مگر مجھے اسکی پروا نہیں۔ ہمارے پاس سر راجکمار اور میڈم اوما موجود ہیں، وہ ہمیں خوراک، تعلیم اور رہائش دے رہے ہیں۔ سر میرے والد اور میڈم میری ماں ہیں۔ میں مستقبل میں انکے بتائے گئے راستے پر چلوں گی”۔
اسکول کے بعد ارمیلا بچوں کے ساتھ رقص کررہی ہے، اسے رقص سے محبت ہے اور وہ مستقبل میں ایک مشہور رقاصہ بننا چاہتی ہے۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |