Written by prs.adminJanuary 17, 2014
Nepal Anti-Trafficking Hero: “We want to change those tears into powers.نیپالی ہیومین ٹریفکنگ کیلئے سرگرم خاتون
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
نیپال میں ہیومین ٹریفکنگ طویل عرصے سے ایک بڑا مسئلہ ہے، چاریما ٹمانگ کو اس وقت فروخت کردیا گیا تھا جب ان کی عمر سولہ تھی، اپنے اس ہولناک تجربے کے باعث انھوں نے ہیومین ٹریفکنگ کی روک تھام کیلئے ایک این جی او ساکتی سا موہا قائم کی، ان کے ادارے کو گزشتہ برس ایشیاءکے نوبل انعام سمجھے جانے والے رامون ما گسا یا سے ایوارڑسے بھی نوازا گیا، اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
پندرہ کے قریب افراد این جی او شاکتی سامو ہا کے دفتر میں کام میں مصروف ہیں، یہ تنظیم ہیومین ٹریفکنگ کیخلاف کام کررہی ہے۔
یہ لوگ این جی او کی صدر سنیتا دانووارکیساتھ اپنے آئندہ کے پروگرام پر بات چیت کررہے ہیں۔
سنیتا”ہم ہیومین ٹریفکنگ کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے پر توجہ دے رہے ہیں، ہم ایسے محفوظ گھر بھی چلارہے ہیں، جہاں ایسے متاثرین کو پناہ دی جاتی ہے جو اپنے گھر یا گاﺅں واپس نہیں جاسکتے”۔
سنیتا کو ماضی میں بھارت کے معروف بازار حسن کمات پورمیں فروخت کردیا گیا تھا۔
سنیتا”ہم نے یہ این جی او اس توقع کیساتھ قائم کی ہے کہ کوئی اور نوجوان لڑکی کو ان مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، جن سے ہمیں گزرنا پڑا، اور اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری این جی او دنیا کی پہلی ایسی انسداد ہیومین ٹریفکنگ تنظیم ہے جو متاثرہ افراد خود چلارہے ہیں”۔
اس این جی او کی بانی چاریما یا تمنگ جب سولہ سال کی تھی تو انہیں بھی بازار حسن میں فروخت کردیا گیا تھا، وہاں انہیں دو سال گزارنے پڑے، جس کے بعد بھارتی حکومت نے ان سمیت دو سو نیپالی خواتین کو وہاں سے بازیاب کرا لیا۔
چاریما یا تمنگ “مجھے وہ تاریخ اب بھی یاد ہے، وہ پانچ فروری 1996ءکا دن تھا، جب اچانک پولیس نے اس قحبہ خانے پر چھاپہ مارا، اس وقت میں دوپہر کا کھانا کھا رہی تھی، اس کے بعد مجھے پولیس اسٹیشن لے جایا گیا، میں خوفزدہ تھی، مگر وہ دن میری زندگی میں نئی روشنی ثابت ہوا”۔
نیپال واپسی کے بعد چاریما یانے دیگر پندرہ متاثرین کے ہمراہ اپنی ایک این جی او کی بنیاد رکھی۔
چاریما یا”اس وقت کوئی بھی ہمیں قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھا، اسی وجہ سے ہم نے متحد ہونے کا فیصلہ کیا، جب ہم قحبہ خانے میں تھے تو ہم نے ملکر اپنے آنسوﺅں کو بہایا تھا، ہم نے آزادی کے بعد ان آنسوﺅں کو اپنی طاقت میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا”۔
مگر شروع میں حالات آسان نہیں تھے، سنیتا کو اب بھی وہ وقت یاد ہے۔
سنیتا”آغاز میں ہمیں متعدد چیلنجز کا سامنا تھا، ہم اپنے تجربات پر بات تک نہیں کرسکتے تھے، مگر اب معاشرے نے ہمیں قبول کرلیا ہے، حکومت نے بھی ہماری خدمات کو تسلیم کیا ہے”۔
سب سے پہلے چاریما یانے ایک فوجداری مقدمہ اپنے پڑوسیوں پر دائر کیا، جنھوں نے انہیں اغوا کیا تھا، جس کے بعد چار افراد کو دس برس قید کی سزا سنائی گئی۔ اس کے بعد انھوں نے دیگر متاثر کی مدد کیلئے شاکتی ساموہاکو قائم کیا۔
چاریما یا”ہم صرف اخلاقی حمایت نہیں بلکہ متاثرین کو قانونی معاونت بھی فراہم کرتے ہیں، ہمارے تعاون کے بعد کچھ متاثرین نے ہیومین ٹریفکنگ میں ملوث افراد کیخلاف مقدمات درج کروائے، ہم اس وقت متاثرین کیلئے دو پناہ گاہیں بھی چلارہے ہیں، جہاں وہ محدود مدت کیلئے رہ سکتے ہیں۔ ہم متاثرین کو قانونی معاونت تو فراہم کرتے ہیں مگر یہ کافی نہیں، ہمیں متاثرین کی طویل المعیاد معاونت کیلئے مزید فنڈز کی ضرورت ہے۔ حکومت ہمیں تعاون تو فراہم کررہی ہے مگر یہ کافی نہیں”۔
چاریما یا اور ان کی این جی او کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر سراہا جارہا ہے، انہیں 2007ءمیں نیپالی حکومت کی جانب سے پہلا ایوارڈ ملا، اور گزشتہ برس انہیں نیپال میں ہیومین ٹریفکنگ کیخلاف جدوجہد پر معتبررامون ماگسے سے ایوارڈسے نوازا گیا۔
چاریما یا”جب ہمیں بھارت میں بچایا گیا اور ہم اپنے ملک واپسی کی کوشش کررہے تھے، تو ہماری حکومت نے ہمیں قبول کرنے سے اناکر کردیا تھا، مگر اب ہمیں ہماری حکومت کی جانب سے اعزازات سے نوازا جارہا ہے، ملکی اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے ہمیں سراہا جارہا ہے، جس نے ہمارے اندر نئی توانائی بھر دی ہے”۔
نیپال میں ہیومین ٹریفکنگ کے حوالے سے کوئی درست ڈیٹا دستیاب نہیں، مگر کئی اداروں کا دعویٰ ہے کہ ہر سال پانچ ہزار کے قریب خواتین کو ٹریفک کیا جاتا ہے۔
چاریما یا”جب میں نے بائیس ماہ قحبہ خانے میں گزارے، تو ہر ماہ متعدد نیپالی خواتین کو وہاں لایا جاتا تھا، کچھ کی عمریں تو صرف دس سال تھیں، جبکہ کچھ بیوائیں بھی تھیں۔ میں نے اپنی پوری زندگی نیپال میں خواتین کی ٹریفکنگ کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کیلئے صرف کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کیونکہ میرے گاﺅں میں بیٹیوں کو آمدنی کیلئے بھارت بھیجنے کا رجحان کافی عام ہے”۔
چاریما یاکا ماننا ہے کہ یہ ایک طویل جدوجہد ثابت ہوگی۔
چاریما یا”ہم شعور اجاگر کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور حکومت بھی یہی کوشش کررہی ہے، تاہم اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے مزید اقدامات کئے جانیکی ضرورت ہے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | 4 | 5 | ||
6 | 7 | 8 | 9 | 10 | 11 | 12 |
13 | 14 | 15 | 16 | 17 | 18 | 19 |
20 | 21 | 22 | 23 | 24 | 25 | 26 |
27 | 28 | 29 | 30 | 31 |