Written by prs.adminMay 6, 2013
Mothers Fear for Their Children Following Rape of 5-year-old in India – بھارت میں پانچ سالہ بچی سے زیادتی
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
نئی دہلی میں ایک طالبہ سے اجتماعی زیادتی کے واقعے کو اب کئی ماہ گزر چکے ہیں، تاہم اب ایک بار پھر بھارت زیادتی کے سفاکانہ واقعے کی وجہ سے خبروں کی سرخیوں میں ہے۔ اس بار ایک پانچ سالہ بچی ہدف بنی ہے، اسے پہلے بند کرکے تشدد کیا گیا اور پھر زیادتی کی گئی۔ اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
سینکڑوں مظاہرین کا نئی دہلی میں پولیس ہیڈکوارٹر کے باہر اہلکاروں سے تصادم ہورہا ہے، یہ لوگ رکاوٹیں ہٹا کر اندر داخل ہونا چاہتے ہیں اور انکا مطالبہ ہے کہ شہر کے پولیس کمشنر کو فوری طور پر ہٹایا جائے۔ رنجنا کماری ان مظاہرین میں شامل ہیں۔
رنجنا”انہیں کوئی فکر نہیں، وہ کسی کو روکنے کیلئے تیار نہیں، ہمیں پولیس والوں کی بے حسی صاف نظر آرہی ہے، ان کے ذہن بند ہیں اور یہ ہمارے لئے قابل برداشت نہیں”۔
اسی طرح کے مظاہرے پارلیمنٹ ہاﺅس، وزیراعظم کی رہائشگاہ اور دیگر شہروں میں بھی ہورہے ہیں، یہ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب دہلی میں ایک پانچ سالہ بچی سے زیادتی کا واقعہ سامنے آیا۔والدین کے مطابق یہ بچی اپنے گھر کے باہر کھیل رہی تھی کہ اسے اغوا کرلیا گیا۔ دو روز بعد اسے ایک پڑوسی کے گھر میں اس حالت میں بندھا ہوا پایا گیا کہ اس کا جسم اپنے ہی خون میں نہایا ہوا تھا۔ طبی معائنے نے تصدیق کی کہ بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔آر کے بسل نئی دہلی کے سوامی دیانند ہسپتال کے ایک سرجن ہیں۔
آر کے بسل”ہم نے اس کے جسم کے اندر سے بڑی مقدار میں تیل اور موم بتیاں ڈھونڈیں۔ اس کی وجہ سے اسکے جسم کے نازک اعضاءبری طرح متاثر ہوئے ہیں”۔
انکا مزید کہنا ہے کہ بچی کے جسم پر ایسے نشانات بھی ملے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے ملزمان نے اسے مارنے کی بھی کوشش کی۔ متاثرہ بچی کے والدین کا کہنا ہے کہ پولیس نے ابتداءمیں بچی کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرنے سے انکار کردیا تھا، بعد ازاں بچی کے ساتھ ہونے والے خوفناک ظلم کا انکشاف ہوا تو پولیس نے انہیں خاموش رہنے کیلئے رقم کی پیشکش بھی کی۔
والد”انکا کہنا تھا کہ آخر تم اس معاملے پر اتنا شور کیوں مچارہے ہو؟ کوئی اور اس معاملے میں کیا کرسکتا ہے؟ کسی کو اس بارے میں نہ بتاﺅ، وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد انھوں نے ہمیں کچھ رقم دی اور کہا کہ اسے رکھو اور کچھ خوراک لاﺅ اور اپنی بچی کا خیال رکھو”۔
اس معاملے نے پارلیمنٹ کو بھی ہلا کر رکھ دیا، جبکہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے دارالحکومت میں امن و امان کی ناقص صورتحال پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ سمرتی ایرانی اپوزیشن جماعت بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ ہیں۔
سمرتی ایرانی”میں خود بھی ایک نوسالہ بچی کی ماں ہوں اور میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھ سکتی جب تک میں فون پر یہ نہ معلوم کرلوں کہ میری بیٹی محفوظ ہے۔ میری جیسی تمام ورکنگ خواتین یا تمام گھریلو خواتین اپنی بیٹیوں کی اسکولوں یا کالجز سے بحفاظت واپسی تک پریشان رہتی ہیں۔ ہر بھارتی آج خوفزدہ ہے اور پوچھ رہا ہے کہ اسکے بچے محفوظ ہیں یا نہیں؟ کیا ان سب کو بناءکسی خوف کے زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، کیا وہ یقین کرسکتے ہیں کہ ان کے بچے جہاں بھی ہیں وہ محفوظ ہیں؟”
پولیس نے اب دونوں مشتبہ ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے، جبکہ حکام نے متاثرہ بچی کے والدین کی شکایت پر توجہ نہ دینے والے کچھ پولیس اہلکاروں کیخلاف ایکشن لیا ہے۔ متعدد اراکین پارلیمنٹ نے بھی دہلی کے پولیس کمشنر کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے، تاہم کمشنر نیرج کمار نے اسے مسترد کردیا ہے۔
نیرج کمار”مسئلہ ذہنی بدکاری، ذہنی مریضوں اور ذہنی بیماری کا ہے، اور یہ کسی ایک کے مستعفی ہونے سے حل نہیں ہوسکتا۔کم از کم پولیس کے سربراہ کے استعفے سے تو نہیں”۔
بھارت میں حال ہی میں خواتین کے خلاف جنسی جرائم کے حوالے سے ایک سخت قانون متعارف کرایا گیا ہے، اس کے علاوہ حکومت نے گزشتہ برس دہلی میں ہی ایک طالبہ سے چلتی بس میں اجتماعی زیادتی کے واقعے کے بعد خواتین کے تحفظ کیلئے متعدد اقدامات نافذ کئے ہیں، تاہم جنسی حملوں کی شرح میں بھی ڈرامائی اضافہ ہوا ہے، اور اقلیتی فرقے خاص طور پر ہدف بن رہے ہیں۔سماجی کارکن البینا شیکل کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ خواتین کی عوامی زندگی میں شمولیت بڑھنا ہے۔
البینا”خواتین کے کردار میں عظیم ترین تبدیلی آئی ہے، ہزاروں برسوں سے انہیں گھروں میں قید رکھا جاتا تھا، بچوں اور خاندان کے دیگر افراد کی دیکھ بھال ان کی ذمہ داری تھی، مگر اب وہ عوامی زندگی میں دانشور، پیشہ ور اور لیڈرز کی حیثیت سے شریک ہیں۔ ایک طرف وہ باہری دنیا سے اپنے حقوق کا مطالبہ کررہی ہیں، وہیں دوسری جانب وہ گھروں کے اندر اپنے اوپر لادے گئے اضافی بوجھ کے خلاف بھی آواز اٹھا کر تبدیلی کی خواہشمند ہیں۔ اس تبدیلی کیخلاف کافی مزاحمت موجود ہے، اور جنسی تشدد کے ذریعے انہیں یاد دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ صرف مردوں کی دلبستگی کیلئے پیدا ہوئی ہیں وغیرہ وغیرہ”۔
حالیہ مظاہروں میں پولیس کے اندر بنیادی اصلاحات کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے مگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تازہ واقعات کا ذمہ دار صرف پولیس کو ٹھہرانا ناانصافی ہے۔ منوج کمار جھا دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔
منوج کمار جھا”جب ہم ان مسائل پر احتجاج کرتے ہیں تو ہم اداروں جیسے پولیس، سیاستدانوں اور پارلیمنٹ کو مرکز بناکر ان میں موجود کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی اہمیت رکھتا ہے کہ ہم اپنی ذات کا بھی جائزہ لیں، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ نوے فیصد سے زائد یہ واقعات بنددروازوں کے پیچھے ہوتے ہیں، یعنی ہمارے گھروں کی چار دیواری میں، جن میں وہ لوگ ملوث ہوتے ہیں جو متاثرہ فریق کے جاننے والے ہوتے ہیں۔ یہ صرف پولیس کی ناکامی نہیں بلکہ یہ سوچ تبدیل کرنے میں ناکامی کا بھی مظہر ہے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |