(Malaysia’s Invisible Children) نادیدہ ملائیشین بچے
(Malaysia child name) ملائیشین بچوں کا نام
ملائیشیاءمیں ایسے بچے جن کے والد کا نام معلوم نہ ہو تو انہیں متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور شناختی کارڈ یا برتھ سرٹیفکیٹ میں ایسے بچوں کے ولدیت میں عبداللہ کا نام استعمال کیا جاتا ہے
Dr Hartini Zainudin بچوں کے لئے کام کرنیوالی ایک این جی او Yayasan Chow Kit کی بانی ہیں۔
Dr Hartini Zainudin(female)”حکومت نے بچوں کے سروں پر ایک مہر لگادی ہے، اگر اس پر اے لکھا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ بچے کو گود لیا گیا ہے، بی کا مطلب ہے کہ یہ بچہ ناجائز مراسم کا نتیجہ ہے۔ ان بچوں کی ولدیت میں استعمال ہونیوالا نام آپ کو معلوم ہی ہے، جس کے ذریعے ہی وہ پاسپورٹ یا دیگر دستاویزات حاصل کرپاتے ہیں”۔
Dr Hartini Zainudin نے تین بچوں کو گود لے رکھا ہے۔
Dr Hartini Zainudin(female)”پہلے بچے کا نام زید ہے، وہ اب چھ برس کا ہوچکا ہے، جب وہ پہلی بار ہم سے ملا تو وہ نوماہ کا تھا، جس کے بعد ہم نے اسکی ماں کو ڈھونڈا جس نے برتھ سرٹیفکیٹ پر دستخط کئے، جس سے ثابت ہوگیا کہ یہ بچہ ملائیشین ہی ہے۔ برتھ سرٹیفکیٹ پر ماں کی تو تمام تفصیلات موجود ہیں، مگر باپ کے بارے میں کچھ بھی نہیں۔ اب یہاں پر قانون کی شق 13A کا اطلاق ہوتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اگر یہ بچہ ناجائز تعلقات کے باعث پیدا ہوا ہے تو اس کی ولدیت میں عبداللہ کا نام آئے گا”۔
ملائیشیاءمیں مسلمان اپنے والد کا نام اپنے نام کے آخر میں لگاتے ہیں، تاہم جن بچوں کے والد کا نام معلوم نہ ہو تو اس کے آخر میں عبداللہ لگا دیا جاتا ہے۔تاہم اگر بچہ غیر مسلم ہو تو وہ اپنے نام کے آخر میں اس شخص کا نام لگا سکتا ہے جو اسے گود لے لیتا ہے، تاہم شرعی قوانین کے تحت مسلمان بچوں کے لئے ایسا کرنا ممکن نہیں۔شرعی قوانین کے ماہر وکیل نظام بشیراس حوالے سے وضاحت کررہے ہیں۔
نظام(male)”گود لینے والے والدین بچے کی ولدیت میں کوئی اور نام نہیں لگاسکتے، مثال کے طور پر کسی بچے کی ولدیت میں عبداللہ کا نام اس وقت آئے گا جب وہ اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کے باعث دنیا میں آئے، اب چاہے وجہ کچھ بھی ہو مگر ان بچوں کی ولدیت میں عبداللہ کا ہی نام آئے گا”۔
بن عبداللہ ایسے بچوں کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جو زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کے ہاں پیدا ہوتے ہیں، یا شادی کے چھ ماہ بعد ان کی پیدائش ہوجاتی ہے۔ملائیشیاءمیں ایسے بچوں کو ہمیشہ کے لئے ناجائز سمجھ لیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان بچوں کی ولدیت میں کسی اور شخص کا نام کسی صورت لکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب بچوں کے سرٹیفکیٹ میں والد کا نام درج نہ ہوسکتا ہو تو متعدد والدین اسے لینے کی کوشش ہی نہیں کرتے، مگر اس کے باعث بچوں کو مستقبل میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہاں تک کہ وہ قومی شناختی کارڈ کے حصول سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔Dr Hartini کا کہنا ہے کہ کسی شخص کی انفرادی غلطی بچوں کیلئے پوری زندگی کی سزا بن جاتی ہے۔
Dr Hartini(female)”عبداللہ نام کااستعمال ترک کرکے ہم اس تکلیف دہ صورتحال سے نجات پاسکتے ہیں،اس طرح ان بچوں کیلئے ملکی شہریت اور دیگر دستاویزات کا حصول بھی آسان ہوجائےگا۔ اگر میرے پاس دستاویزات نہ ہو تو میں تعلیم بھی حاصل نہیں کرسکتی۔ پھر میں کیا کروں گی؟ اس رکاوٹ کے باعث لڑکیاں یونیورسٹی میں داخلے سے محروم رہتی ہیں اور وہ کوئی ملازمت بھی نہیں کرپاتیں”۔
اس صورتحال نے بچوں کو ایک سنگین خطرے میں ڈال دیا ہے، کیونکہ ملائیشیاءانسانی اسمگلنگ کے حوالے سے کافی بدنام ہے، اور برتھ سرٹیفکیٹ سے محروم بچے ان اسمگلرز کا ہدف بنتے ہیں۔
Hartini(female)”اگر آپ کے پاس دستاویزات نہ ہو تو آپ کیسے ثابت کریں گے کہ آپ ملائیشین شہری ہیں؟ اگر وہ بیرون ملک چلے جائیں تو کاغذات نہ ہونے پر انہیں کس ملک میں ڈی پورٹ کیا جائےگا؟ اگر آپ کے پاس دستاویزات نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ آپ انسانی اسمگلرز کا ہدف بننے کےلئے تیار ہیں، اگر ہم ان کی مدد کریں تو بھی دستاویزات نہ ہونے کے باعث انہیں موجودہ نظام میں بے ریاست شہری سمجھا جاتا ہے”۔
مذہبی رہنماﺅں نے اس پالیسی کے حق میں فتویٰ دیا ہے، اگرچہ اس کی قانونی حیثیت نہیں، مگر حکومتی ادارے اسے مصدقہ حیثیت دینے کیلئے کوشاں ہیں۔ Dr Juanda Jaya، ریاست Perlis کے مفتی ہیں۔وہ اس حوالے سے دیئے جانیوالے فتوے پر اپنے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔
Dr Juanda Jaya(male)”ہمیں بتایا گیا ہے کہ کسی لڑکی کی شادی کے لئے اس کے والدین کی شادی کا سرٹیفکیٹ لازمی ہوتا ہے۔ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ اللہ ہماری شہ رگ کے قریب ہے، اگر ہم گناہ کریں گے تو توبہ کرنے پر اللہ ہمیں معاف کر دے گا، مگر ہم کسی لڑکی کی شادی کے موقع پر اسے انتہائی سخت سزا دیتے ہیں۔ جس سے اسے اچانک پتا چلتا ہے کہ وہ تو ناجائز اولا د ہے، جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ لوگ نہیں بلکہ مذہب ہمیں سزا دے رہا ہے”۔
کچھ حلقے اس صورتحال کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں حال ہی میں ایک این جی او سسٹرزآف اسلام نے کچھ کام بھی کیا ہے۔Dr Juanda Jaya کچھ سوالات اٹھا رہے ہیں۔
Dr Juanda Jaya(male)”ہمیں اس حوالے سے مختلف سوچ کو اپنانا چاہئے اور لوگوں کو آپشنز دینے چاہئے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ موجودہ نظام کو تسلیم کرتے ہوئے مگر بہت سے لوگ اسے سزا ہی سمجھتے ہوں گے، اس لئے انہیں متبادل فراہم کرنا چاہئے۔ ہمیں اس معاملے پر مہم چلانی چاہئے، ورنہ اس مسئلے پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا”۔
شرعی قوانین کے ماہر نظام بشیر کا کہنا ہے کہ متاثرہ والدین کو اس معاملے پر عدالت سے رجوع کرنا چاہئے۔
نظام بشیر(male)”ہر شخص کو آئین کے تحت بنیادی حقوق حاصل ہیں، جنھیں حکومت غضب نہیں کرسکتی۔ اس طرح کے معاملات میں والدین کو چاہئے کہ وہ اسے عدالت میں لے کر جائیں، کیونکہ آئین نے انہیں اس بات کا حق دیا ہے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply