Written by prs.adminJanuary 5, 2014
Karen Refugee Clinic Pioneer Wins Sydney Peace Prizeبرمی ڈاکٹر
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
ایک برمی ڈاکٹر کو تھائی برمی سرحد پر خدمات سر انجام دینے پر سڈنی امن پرائز دینے کا اعلان کیا گیا ہے، سنتھیا ماﺅنگ نامی ڈاکٹر نے پچیس سال قبلمائی ٹاﺅ کلنک قائم کیا تھا، جس کے تحت اب تک ہزاروں افراد کو طبی سہولیات فراہم کی جاچکی ہیں۔ ان کا انٹرویو سنتے ہیں آج کی رپورٹ میں
سنتھیا ماﺅنگ “برمی کی لگ بھگ تیس فیصد آبادی قبائلی یا مختلف لسانی گروپس پر مشتمل ہے، ستر فیصد آبادی دیہی علاقوں میں مقیم ہے، تو جمہوری اصلاحات اور سیاسی تبدیلی کے باوجود اب تک ہمیں ان مظلوم افراد کی زندگیوں میں زیادہ بہتری نظر نہیں آئی۔حکومت اور باغیوں کے درمیان امن بات چیت جاری ہے، مگر زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ لوگوں کو ابھی بھی مشکلات کا سامنا ہے، انہیں طبی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں، تعلیم اور تحفظ جیسے مسائل پر بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی”۔
سوال” کرنز قبیلے اور برما کے دیگر گروپس کی حالت و زار کو عالمی میڈیا میں زیادہ اجاگر نہیں کیا جاتا، کیا آپ کے خیال میں یہ امن انعام ان برمی گروپس کی مشکلات کو نمایاں کرنے میں مددگار ثابت ہوسکے گا؟
ماﺅنگ”جی ہاں تمام لسانی گروپس اور برمی عوام کے درمیان مستحکم اور طویل المعیاد رابطے کی ضرورت ہے،تاکہ ایک پرامن اور جمہوری ملک کا قیام ممکن بنایا جاسکے۔ تو ہمیں لگتا ہے کہ مساویٰ حقوق، بات چیت اور انسانی حقوق کے فروغ سے حالات بہتر بنائے جاسکتے ہیں، اسی طرح اقتصادی اور سرمایہ کاری کے میدانوں پر توجہ دینا ہوگی، مگر سرمایہ کاری کے دوران ذمہ داری کا بھی ثبوت دینا ہوگا، کیونکہ کاشتکاروں کی زمینوں پر قبضہ کرلیا جاتا ہے، جبکہ فوجی چوکیاں دیہات کے ارگرد واقع ہیں، جسکی وجہ سے مقامی افراد میں عدم تحفظ کا احساس ختم نہیں ہوسکا ہے۔ دہائیوں سے بے گھر افراد اپنے گھروں کا رخ کرنا چاہتے ہیں اور اپنے گاﺅں و برادری کیساتھ رہنا چاہتے ہیں، مگر ان کی گھروں میں محفوظ واپسی ایک بڑا چیلنج ہے، جبکہ بہتر معیار زندگی کا خواب بھی اب تک پورا نہیں ہوسکا ہے۔کرن اسٹیٹ یا دیگر ریاستوں میں سرمایہ کاری پر تشویش پائی جاتی ہے، ہم نے ایسے دیہات جو اقتصادی زونز میں شامل کئے گئے ہیں، میں دیکھا ہے کہ زمینوں پر زبردستی قبضہ کیا گیا، جس سے لوگ متاثر ہوئے، جبکہ ماحولیاتی اثرات سے کچھ زمین سیلاب کے باعث تباہ ہوگئی، اس آفت نے روزمرہ کی زندگی کو بہت متاثر کیا ہے، کرن اسٹیٹ میں سرمایہ کاری منصوبوں کے تحفط کیلئے فوجیوں چوکیوں کی تعداد میں اضافے سے لوگوں کے اندر عدم تحفظ بڑھا ہے”۔
سوال”اب آپ کے کام کی جانب آتے ہیں، آپ کو برمی حکام نے دعوت دی ہے کہ واپس آکر دیگر علاقوں میں بھی اپنا کلینک قائم کریں، کیا آپ نے اس پیشکش کو مسترد کردیا ہے؟
مائنگ”اس کلینک کے ذریعے تھائی برمی سرحد پر بے گھر افراد کو طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں، بے گھر افراد کی زندگیاں بہت مشکل ہیں، تو ہمارا موجودہ کلینک نہ صرف طبی سہولیات فراہم کررہا ہے بلکہ وہ تھائی برمی سرحد پر ہیلتھ ورکرز کیلئے ایک تربیتی مرکز بھی ہے، یہ مختلف گروپس کیلئے موقع ہے کہ وہ اپنی برادریوں میں نظام صحت کو بہتر بنائیں، ہم مختلف لسانی گروپس کیساتھ ملکر کام کررہے ہیں تاکہ وہ اپنی برادریوں کی حالت بہتر بناسکیں۔تو برما واپس جاکر اپنا کلینک قائم کرنے کی بجائے ہم برمی حکاک کو مشور دیتے ہیں کہ وہ اپنے موجودہ طبی نظام اور انفراسٹرکچر کو بہتر بنائیں، اور لسانی طبی تنظیموں کیساتھ ملکر طبی خدمات یا نظام میں بہتری لائیں”۔
سوال”مگر کیا آپ کے خیال میں یہ بہتر نہیں کہ برما واپس جاکر مقامی حکام کے ساتھ ملکر ملک کو زیادہ جمہوری بنانے کی کوشش کریں؟
مائنگ”جی ہاں جیسا میں نے پہلے کہا کہ ہم مقامی اداروں اور گروپس کو خدمات کی فراہمی کیساتھ ساتھ ان کی حالت بہتر بنانے میں بھی مدد کررہے ہیں، تو حکومت کو اس کا اعتراف کرتے ہوئے موجودہ ہیلتھ انفراسٹرکچر کی حالت بہتر بنانی چاہئے اور لسانی گروپس کیساتھ ملکر کام کرنا چاہئے، اس سے جمہوری اصلاحات کو زیادہ بہتر طریقے سے نافذ کیا جاسکے گا”۔
سوال”آپ نے پچیس سال قبل مائی ٹاﺅ کلنک کی بنیاد رکھی تھی، اور آغاز میں آپ کے پاس سہولیات نہ ہونے کے برابر تھی، ماضی کے مقابلے میں اب کیا تبدیلی آچکی ہے؟ کیا اب آپ کے مرکز میں بہتر سہولیات دستیاب ہیں؟
مائنگ”جی ہاں اب ہمارے ہیلتھ ورکرز کی تعداد چھ سو ہوگئی ہے، اور ہم مقامی آبادی کو منظم پروگرام کے تحت سہولیات فراہم کررہے ہیں، جن میں چائلڈ ہیلتھ سروسز اور پریوینٹیو سروسزقابل ذکر ہیں۔ ابھی ہم سالانہ ایک لاکھ سے زائد مریضوں کو علاج کررہے ہیں، تو طبی خدمات کا دائرہ بڑھنے سے ہم اس بات کو یقینی بناسکیں گے کہ ان افراد کو طبی سہولیات ان کی اپنی برادری کے اندر ہی مل سکیں، اور انہیں اپنے گاﺅں سے نکل کر ہمارے پاس نہ آنا پڑے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہیلتھ ورکرز اپنی اپنی برادریوں میں جاکر پرامن طریقے سے کام کرسکیں، تو ہیلتھ ورکرز کے کام اور مختلف تنطیموں کا تعلق بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جس سے مقامی سطح پر ہی طبی خدمات فراہم کی جاسکیں گی”۔
Karen Refugee Clinic Pioneer Wins Sydney Peace Prizeبرمی ڈاکٹر
ایک برمی ڈاکٹر کو تھائی برمی سرحد پر خدمات سر انجام دینے پر سڈنی امن پرائز دینے کا اعلان کیا گیا ہے، سنتھیا ماﺅنگ نامی ڈاکٹر نے پچیس سال قبلمائی ٹاﺅ کلنک قائم کیا تھا، جس کے تحت اب تک ہزاروں افراد کو طبی سہولیات فراہم کی جاچکی ہیں۔ ان کا انٹرویو سنتے ہیں آج کی رپورٹ میں
سنتھیا ماﺅنگ “برمی کی لگ بھگ تیس فیصد آبادی قبائلی یا مختلف لسانی گروپس پر مشتمل ہے، ستر فیصد آبادی دیہی علاقوں میں مقیم ہے، تو جمہوری اصلاحات اور سیاسی تبدیلی کے باوجود اب تک ہمیں ان مظلوم افراد کی زندگیوں میں زیادہ بہتری نظر نہیں آئی۔حکومت اور باغیوں کے درمیان امن بات چیت جاری ہے، مگر زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ لوگوں کو ابھی بھی مشکلات کا سامنا ہے، انہیں طبی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں، تعلیم اور تحفظ جیسے مسائل پر بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی”۔
سوال” کرنز قبیلے اور برما کے دیگر گروپس کی حالت و زار کو عالمی میڈیا میں زیادہ اجاگر نہیں کیا جاتا، کیا آپ کے خیال میں یہ امن انعام ان برمی گروپس کی مشکلات کو نمایاں کرنے میں مددگار ثابت ہوسکے گا؟
ماﺅنگ”جی ہاں تمام لسانی گروپس اور برمی عوام کے درمیان مستحکم اور طویل المعیاد رابطے کی ضرورت ہے،تاکہ ایک پرامن اور جمہوری ملک کا قیام ممکن بنایا جاسکے۔ تو ہمیں لگتا ہے کہ مساویٰ حقوق، بات چیت اور انسانی حقوق کے فروغ سے حالات بہتر بنائے جاسکتے ہیں، اسی طرح اقتصادی اور سرمایہ کاری کے میدانوں پر توجہ دینا ہوگی، مگر سرمایہ کاری کے دوران ذمہ داری کا بھی ثبوت دینا ہوگا، کیونکہ کاشتکاروں کی زمینوں پر قبضہ کرلیا جاتا ہے، جبکہ فوجی چوکیاں دیہات کے ارگرد واقع ہیں، جسکی وجہ سے مقامی افراد میں عدم تحفظ کا احساس ختم نہیں ہوسکا ہے۔ دہائیوں سے بے گھر افراد اپنے گھروں کا رخ کرنا چاہتے ہیں اور اپنے گاﺅں و برادری کیساتھ رہنا چاہتے ہیں، مگر ان کی گھروں میں محفوظ واپسی ایک بڑا چیلنج ہے، جبکہ بہتر معیار زندگی کا خواب بھی اب تک پورا نہیں ہوسکا ہے۔کرن اسٹیٹ یا دیگر ریاستوں میں سرمایہ کاری پر تشویش پائی جاتی ہے، ہم نے ایسے دیہات جو اقتصادی زونز میں شامل کئے گئے ہیں، میں دیکھا ہے کہ زمینوں پر زبردستی قبضہ کیا گیا، جس سے لوگ متاثر ہوئے، جبکہ ماحولیاتی اثرات سے کچھ زمین سیلاب کے باعث تباہ ہوگئی، اس آفت نے روزمرہ کی زندگی کو بہت متاثر کیا ہے، کرن اسٹیٹ میں سرمایہ کاری منصوبوں کے تحفط کیلئے فوجیوں چوکیوں کی تعداد میں اضافے سے لوگوں کے اندر عدم تحفظ بڑھا ہے”۔
سوال”اب آپ کے کام کی جانب آتے ہیں، آپ کو برمی حکام نے دعوت دی ہے کہ واپس آکر دیگر علاقوں میں بھی اپنا کلینک قائم کریں، کیا آپ نے اس پیشکش کو مسترد کردیا ہے؟
مائنگ”اس کلینک کے ذریعے تھائی برمی سرحد پر بے گھر افراد کو طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں، بے گھر افراد کی زندگیاں بہت مشکل ہیں، تو ہمارا موجودہ کلینک نہ صرف طبی سہولیات فراہم کررہا ہے بلکہ وہ تھائی برمی سرحد پر ہیلتھ ورکرز کیلئے ایک تربیتی مرکز بھی ہے، یہ مختلف گروپس کیلئے موقع ہے کہ وہ اپنی برادریوں میں نظام صحت کو بہتر بنائیں، ہم مختلف لسانی گروپس کیساتھ ملکر کام کررہے ہیں تاکہ وہ اپنی برادریوں کی حالت بہتر بناسکیں۔تو برما واپس جاکر اپنا کلینک قائم کرنے کی بجائے ہم برمی حکاک کو مشور دیتے ہیں کہ وہ اپنے موجودہ طبی نظام اور انفراسٹرکچر کو بہتر بنائیں، اور لسانی طبی تنظیموں کیساتھ ملکر طبی خدمات یا نظام میں بہتری لائیں”۔
سوال”مگر کیا آپ کے خیال میں یہ بہتر نہیں کہ برما واپس جاکر مقامی حکام کے ساتھ ملکر ملک کو زیادہ جمہوری بنانے کی کوشش کریں؟
مائنگ”جی ہاں جیسا میں نے پہلے کہا کہ ہم مقامی اداروں اور گروپس کو خدمات کی فراہمی کیساتھ ساتھ ان کی حالت بہتر بنانے میں بھی مدد کررہے ہیں، تو حکومت کو اس کا اعتراف کرتے ہوئے موجودہ ہیلتھ انفراسٹرکچر کی حالت بہتر بنانی چاہئے اور لسانی گروپس کیساتھ ملکر کام کرنا چاہئے، اس سے جمہوری اصلاحات کو زیادہ بہتر طریقے سے نافذ کیا جاسکے گا”۔
سوال”آپ نے پچیس سال قبل مائی ٹاﺅ کلنک کی بنیاد رکھی تھی، اور آغاز میں آپ کے پاس سہولیات نہ ہونے کے برابر تھی، ماضی کے مقابلے میں اب کیا تبدیلی آچکی ہے؟ کیا اب آپ کے مرکز میں بہتر سہولیات دستیاب ہیں؟
مائنگ”جی ہاں اب ہمارے ہیلتھ ورکرز کی تعداد چھ سو ہوگئی ہے، اور ہم مقامی آبادی کو منظم پروگرام کے تحت سہولیات فراہم کررہے ہیں، جن میں چائلڈ ہیلتھ سروسز اور پریوینٹیو سروسزقابل ذکر ہیں۔ ابھی ہم سالانہ ایک لاکھ سے زائد مریضوں کو علاج کررہے ہیں، تو طبی خدمات کا دائرہ بڑھنے سے ہم اس بات کو یقینی بناسکیں گے کہ ان افراد کو طبی سہولیات ان کی اپنی برادری کے اندر ہی مل سکیں، اور انہیں اپنے گاﺅں سے نکل کر ہمارے پاس نہ آنا پڑے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہیلتھ ورکرز اپنی اپنی برادریوں میں جاکر پرامن طریقے سے کام کرسکیں، تو ہیلتھ ورکرز کے کام اور مختلف تنطیموں کا تعلق بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جس سے مقامی سطح پر ہی طبی خدمات فراہم کی جاسکیں گی”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | 4 | 5 | ||
6 | 7 | 8 | 9 | 10 | 11 | 12 |
13 | 14 | 15 | 16 | 17 | 18 | 19 |
20 | 21 | 22 | 23 | 24 | 25 | 26 |
27 | 28 | 29 | 30 | 31 |