Written by prs.adminMarch 23, 2013
Indonesia’s ‘Unofficial’ Children Struggling for a Future – انڈونیشیاءمیں برتھ سرٹیفکیٹ کے حصول میں مشکلات
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
انڈونیشیاءمیں پیدائشی سند یا برتھ سرٹیفکیٹ کا حصول اکثر اوقات درد سر بن جاتا ہے، مگر اس کے بغیر گزارہ بھی نہیں۔ اگر یہ سرٹیفکیٹ نہ ہو تو تعلیم اور طبی سہولیات سمیت متعدد بنیادی حقوق سے محرومی کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔
جکارتہ کے آوارہ بچوں کے ایک اسکول سیکولا جالان میں پڑھائی ہورہی ہے، آج طالبعلم ایک گانے کی مشق کررہے ہیں جو وہ کئی ماہ سے سیکھ رہے ہیں۔
روزانہ تین گھنٹے تک کھلنے والے اس اسکول میں عام اسکولوں کی طرح بچوں سے نظم و ضبط یا دیگر چیزوں کا مطالبہ نہیں کیا جاتا۔اِیبو پیپٹ نے تین سال قبل اس کی بنیاد رکھی تھی، وہ بتارہی ہیں کہ ان طالبعلموں کیلئے وہ اتنی لچک کیوں دکھا رہے ہیں۔
اِیبو پیپٹ” اس کی اقتصادی وجوہات ہیں، یہ بچے کام کرکے اپنے والدین کی مدد کرتے ہیں اور کچرا وغیرہ چننے کا کام کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر خاکروب ہیں، جبکہ کچھ گلیوں میں رہتے ہیں۔ یہ روزانہ اجرت پر کام کرتے ہیں اور یہ پیسے گھر جاکر والدین کے ہاتھ میں رکھ دیتے ہیں”۔
آج صرف دس طالبعلم اسکول آئے ہیں، مگر کئی بار ان کی تعداد تیس سے زائد بھی ہوجاتی ہے۔ چھ سے تیرہ سال کی عمر کے یہ بچے ایک چھوٹے کمرے میں ریاضی، موسیقی، انگریزی اور جاپانی زبان کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
اِیبو پیپٹ” آخر میں نے ان آوارہ بچوں کیلئے اسکول کیوں کھولا؟ کیونکہ میں ان بچوں کے بارے میں فکرمند تھی، یہ بچے انڈویشین قوم کا مستقبل ہیں، ان بچوں کو ذہین بنانا ہوگا، کیونکہ یہی مستقبل میں ہمارے ملک کو ترقی دلائیں گے، انہیں ذہین بنانا ہوگا اور انہیں ان کے تمام حقوق دینا ہوں گے”۔
یہ بچے اکثر و بیشتر اپنے حقوق سے محروم رہتے ہیں، جس کی وجہ ان کے پاس برتھ سرٹیفکیٹ نہ ہونا ہے، کاغذ کے اس چھوٹے سے ٹکڑے کی عدم موجودگی کے باعث وہ کسی اچھے اسکول میں داخلہ نہیں لے سکتے۔ امرُلا سُوفیان بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی این جی او پلان انڈونیشیاءکے پروگرام منیجر ہیں۔
امرُلا سُوفیان” پیدائشی رجسٹریشن بچون کی اولین شناحت کا حصہ ہے، جس سے انہیں دیگر حقوق حاصل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ یعنی انہیں شناخت ملتی ہے، قومیت معلوم ہوتی ہے، تعلیم اور طبی سہولیات تک رسائی کا حق ملتا ہے وغیرہ وغیرہ”۔
انکا کہنا ہے کہ برتھ سرٹیفکیٹ نہ ہونے سے ان بچوں کو مستقبل میں متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
امرُلا سُوفیان” جب وہ ملازمتوں کی تلاش کررہے ہوتے ہیں تو انہیں حکومت کے پاس خود کو رجسٹر کرانا ہوتا ہے، جب وہ بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں تو پاسپورٹ کے حصول کیلئے انہیں برتھ سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح شادی کی رجسٹریشن کیلئے بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے، یہ وہ چند مشکلات ہیں جو برتھ سرٹیفکیٹ سے محروم بچوں کو مستقبل میں درپیش ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس عمل کو آسان بنانے کی حمایت کرتے ہیں”۔
گزشتہ برس ان کی این جی او نے جکارتہ کی پانچ کچی بستیوں میں ایک سروے کرایا تھا، جس کے بعد معلوم ہوا کہ دو تہائی والدین نے اپنے بچوں کے برتھ سرٹیفکیٹ کے حصول کیلئے کوئی کوشش ہی نہیں کی، انڈونیشیاءبھر میں یہ اعدادوشمار انتہائی بلند ہیں اور ایک اندازے کے مطابق تین کروڑ بچے رجسٹریشن سے محروم ہیں، یہ تعداد آسٹریلیا کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے۔وزارت سماجی امور کے ایک عہدیدار فیرڈی تسلیم کرتے ہیں کہ برتھ سرٹیفکیٹ کے حصول کے دوران لوگوں کو انتہائی پیچیدہ سرکاری طریقہ کار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
فیرڈی” جکارتہ میں برتھ سرٹیفکیٹ کیلئے درخواست دینا بہت مشکل کام ہے، آپ کے پاس شناختی کارڈ ہونا چاہئے، والدین کو ہسپتال کا برتھ لیٹر اور اپنی شادی کا سرٹیفکیٹ پیش کرنا پڑتا ہے، اور اکثر والدین کے پاس یہ چیزیں نہیں ہوتیں یا کم از کم ان آوارہ بچوں کے پاس تو نہیں ہوتیں”۔
ایبو پیپٹ کے اسکول میں آنے والے بیشتر بچے ایک قریبی کچی بستی میں مقیم ہیں، یہاں افراد کچرا چننے کا کام کرتے ہیں۔ 26 سالہ سینٹی نے ہمیں اپنے ایک کمرے کے گھر میں مدعو کیا۔ان کے تین بچے ہیں جن میں سے کسی کے پاس برتھ سرٹیفکیٹ نہیں۔
سینٹی” برتھ سرٹیفکیٹ کا حصول بہت مشکل ہے، وہ بہت مہنگا بھی ہے، تاہم اگر ہمارے پاس برتھ سرٹیفکیٹ نہ ہو تو ہمارے بچے اسکول نہیں جاسکتے اور ان کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے۔اسی لئے ہم اس کے حصول کے بارے میں سوچ رہے ہیں”۔
وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں۔
سینٹی” جی ہاں میں فکرمند ہوں، مگر اس کے حصول کیلئے جو شرائط ہیں وہ بھی بہت سخت ہیں۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ خوراک کا حصول ہی ہمارے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے”۔
وزارت سماجی امور نے حال ہی میں ایک نیا منصوبہ شروع کیا ہے، جس کے تحت ہر بچے کیلئے پندرہ لاکھ روپے رکھے گئے ہیں، تاکہ انہیں تعلیم اور صحت کی سہولیات مل سکیں، مگر برتھ سرٹیفکیٹ کے بغیر تین کروڑ بچے اس منصوبے سے فائدہ نہیں اٹھاسکیں گے۔امرُلا سُوفیان کا کہنا ہے کہ حکومت کو مزید اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔
امرُلا سُوفیان” ہم نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ لوگوں کے مسائل سے آنکھیں نہ چرائے، یہ آوازہ بچے ایک حقیقیت ہیں، اس لئے حکومتی پالیسی کو کھلے ذہن سے تیار کیا جانا چاہئے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | 4 | 5 | ||
6 | 7 | 8 | 9 | 10 | 11 | 12 |
13 | 14 | 15 | 16 | 17 | 18 | 19 |
20 | 21 | 22 | 23 | 24 | 25 | 26 |
27 | 28 | 29 | 30 | 31 |
Leave a Reply