Written by prs.adminAugust 12, 2012
(India’s Surrogate Mothers Escape Poverty)غربت سے بچاﺅ کیلئے متبادل مائیں بننے کا رجحان
Asia Calling | ایشیا کالنگ . Social Issues Article
(India’s Surrogate Mothers Escape Poverty)غربت سے بچاﺅ کیلئے متبادل مائیں بننے کا رجحان
بھارت میں بچوں کے حصول کیلئے خواتین کی خدمات حاصل کرنے کا رجحان بہت زیادہ زور پکڑ چکا ہے، یعنی اس مقصد کیلئے خواتین کا مادر رحم کرائے پر لیا جاتا ہے۔ اس چیز پر متعدد ممالک میں پابندی عائد ہے، تاہم بھارت میں یہ ایک بہت بڑی صنعت بن چکی ہے۔
28 سالہ Kruti ایک بچے کو گود میں کھلا رہی ہے۔ اس نے چند ہفتے قبل ہی ریاست گجرات کے شہر آنند کے Akansha Infertility Clinic میں اس بچے کو جنم دیا تھا، مگر یہ لڑکا Kruti کا نہیں، بلکہ یہ ایک کینیڈین جوڑے کا ہے۔یہ دوسری بار ہے کہ Kruti نے کسی اور کے بچے کو اپنی کوکھ میں پالا۔
(female) Kruti “میں نے خود اس قسم کی ماں بننا پسند کیا، مجھے یہ سوچ کر اچھا لگتا ہے کہ میں بے اولاد جوڑوں کو بچہ دیکر انکی مدد کررہی ہوں۔میں ان پڑھ ہوں مگر میرا خواب ہے کہ میرے بچے اچھے اسکولوں میں پڑھیں۔ اس مقصد کیلئے مجھے بہت زیادہ پیسوں کی ضرورت ہے، اور متبادل ماں بن کر میں یہ خواب پورا کرسکتی ہوں، میں یہ سوچ کر بہت خوش ہوں”۔
Kruti کے اپنے تین بچے ہیں اور وہ ہی اپنے خاندان کی کفیل ہیں۔ انھوں نے کچھ برس قبل surrogate mother یا متبادل ماں، جو کسی اور عورت کی خاطر مصنوعی تخم ریزی کے ذریعے نطفہ قبول کرتی ہے۔وہ تنہا نہیں، بلکہ بھارت بھر میں گزشتہ برس اس طرح دو ہزار سے زائد خواتین کے ہاں بچے ہوئے۔ ان میں سے بیشتر کچی بستیوں میں مقیم انتہائی غریب خواتین تھیں۔ اس کام سے انہیں چھ سے دس ہزار ڈالر کے قریب رقم مل جاتی ہے، جوکہ ان افراد کے لئے بہت بڑی ہے۔
27 سالہ Rimi اپنی بیٹی کو اسکول بھیج رہی ہیں، وہ بھی ایک متبادل ماں ہیں، انکے ہاں رواں سال جنوری میں ہی ایسے بچے کی پیدائش ہوئی تھی۔ وہ ایک telephone kiosk میں کام کرکے ماہانہ 55 ڈالر کما لیتی ہیں، مگر گزشتہ برس انھوں نے ایک اخبار میں متبادل ماں بننے کا اشتہار دیکھا تھا، اور رقم کی فوری ضرورت کے باعث انھوں نے اس کا فوری جواب دیا۔
(female) Rimi “میرے شوہر کے انتقال کو تین برس ہوگئے ہیں، جس کے بعد سے مجھے اپنے دو بچوں کی پرورش کیلئے مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ مجھے متبادل ماں بننے کی پیشکش کی گئی تو میں نے اسے قبول کرلیا۔ میں اس رقم سے کمرہ تعمیر کراﺅ گی جہاں مستقبل میں میرے بچے رہ سکیں گے۔ میں اس کلینک اور جوڑے کی شکرگزار ہوں جنھوں نے مجھے اتنی بڑی رقم دی”۔
Rimi کو اس کام کیلئے چھ ہزار ڈالر ملے تھے، Rimi نے اپنی جیسی مزید پانچ خواتین کو اس کلینک میں متعارف کرایا ہے۔
(female) Rimi “میری طرح یہ خواتین بھی بہت غریب ہیں۔ بچے کی پیدائش کے دوران یہ ایک برس تک کوئی اور کام نہیں کرسکے گیں،مگر یہ ایک ایسی خدمت ہے جو انمول ہے۔ یہ خواتین بے اولاد جوڑوں کی مدد کرنے کیلئے تیار ہیں، اگر وہ اس کام کیلئے پیسے لے رہی ہیں تو اس میں غلط کیا ہے؟”
یہ طبی مراکز ایسی متبادل ماﺅں کی سروس فراہم کرنے کیلئے بے اولاد جوڑوں سے بارہ سے تیس ہزار ڈالر لیتے ہیں۔ اگر یہ جوڑے غیرملکی ہوں تو اس سے سفری اور رہائشی اخراجات بھی لئے جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں دس فیصد جوڑے بانجھ یا بے اولاد ہیں۔ان میں سے بیشتر کو in-vitro fertilisation یا آئی وی ایف کلینکس کا رخ کرنا پڑتا ہے، اسی طرح دنیا بھر میں دو فیصد متبادل مائیں ان بے اولاد جوڑوں کی مدد کرتی ہیں۔ بھارت بھر میں ایک ہزار سے زائد آئی وی ایف کلینکس ہیں، جن میں سے بیشتر متبادل ماﺅں کی سروس فراہم کرتے ہیں، تاہم کچھ حلقے اس کاروبار کو پسند نہیں کرتے۔خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی سماجی کارکن Brinda Karat بھی ان میں سے ایک ہیں۔
(female) Brinda Karat “غیرملکی شہری اس صورتحال کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، کیونکہ ان کے اپنے ملکوں میں اس کام پر پابندی عائد ہے۔ یہ عمل آسٹریلیا میں ممنوع ہے، برطانیہ میں بھی اس پر پابندی ہے، جبکہ متعدد امریکی اور یورپی ریاستوں میں بھی یہ کام نہیں ہوتا، ان ممالک کے رہائشیوں پر اس طرح کے جنیاتی عمل سے بچے حاصل کرنے پر پابندی ہے، تاہم وہ بھارتی خواتین کا استحصال کرنے کیلئے یہاں آجاتے ہیں۔انہیں بھارت میں انتہائی گرمجوشی سے خوش آمدید کہا جاتا ہے، میرے خیال میں تو یہ بھارتی خواتین کی غربت کا استحصال کرنے کے مترادف ہے”۔
شمالی امریکہ کی چند ریاستوں میں اس طرح کے جنیاتی عمل کے ذریعے بچوں کی پیدائش کی اجازت ہے، مگر بھارت میں یہ عمل دو سے تین گنا سستا ہے۔ کچھ لوگ اس عمل کی حمایت کرتے ہیں تاہم رقم کے لین دین پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔In-vitro fertilisation expert، ڈاکٹرکامنی راﺅ کا کہنا ہے کہ یہ غیر اخلاقی عمل ہے کیونکہ اسکا مطلب ہے کہ ہم بچوں کی خرید و فروخت کا حصہ بن رہے ہیں، یہ عمل بغیر کسی معاوضے کے ہی بہترین ہے۔
ڈاکٹر راﺅ(female) “یہ کام بے غرض ہونا چاہئے، اس قسم کی خدمات تو میسر ہونی چاہئے، جو خواتین بچوں کی پرورش نہیں کرسکتیں وہ اس قسم کی خدمت فراہم کرسکتی ہیں۔ یہ طریقہ علاج ہر شخص کیلئے دستیاب ہے”۔
مگر ڈاکٹر Indira Hinduja اس بات سے اتفاق نہیں کرتیں۔ وہ ممبئی کے Hinduja Hospital میں in-vitro fertilisation facility کی سربراہ ہیں،وہ جانتی ہیں کہ اس کام کیلئے بے غرض خواتین کی تلاش کتنا مشکل امر ہے۔
(female) Dr Indira Hinduja “اگر غریب خواتین کسی اور کیلئے حاملہ ہوتی ہیں، اور بے اولاد جوڑا اپنی خوشی کیلئے ان خواتین کو معاوضہ دیتا ہے، تو اس میں غلط کیا ہے؟ جب یہ غریب خاتون فاقے کاٹ رہی ہوتی ہے، اس کے بچے بھوک سے مر رہے ہوتے ہیں، اس کا بارشوں میں گھرگرجاتا ہے، تو کون اس کی مدد کرتا ہے کیا حکومت اس کی مدد کرتی ؟ کیا میں اور آپ اس کی مدد کیلئے آگے آتے ہیں؟”
اس حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ متبادل ماﺅں کے حقوق کے تحفظ کیلئے قوانین ہی موجود نہیں، ان خواتین کو زچگی کے بعد طبی مراکز کی جانب سے کوئی طبی امداد نہیں ملتی، جبکہ یہاں یہ پابندی بھی نہیں کہ کوئی خاتون کتنی بار اس عمل کا حصہ بن سکتی ہے۔اس حوالے سے دو برس قبل ایک قانون تیار کیا گیا تھا، جو رواں برس پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے کا امکان ہے۔ اگر یہ منظور ہوگیا تو متبادل ماﺅں کا کام قانونی تو ہوگا مگر اس حوالے سے قوانین سخت ہوجائیں گے۔مجوزہ قانون کے تحت ایک خاتون جو اس کام کیلئے تیار ہو اس کم از کم عمر 22 جبکہ زیادہ سے زیادہ 34 سال ہوگی۔وہ پانچ سے زائد بچوں کو اس طریقہ کار کے تحت جنم نہیں دے سکے گی۔ Rimi کا کہنا ہے کہ وہ ایک بار پھر متبادل ماں بننا پسند کریں گی۔
(female) Rimi “اگر وہ مجھے اس کام کیلئے معاوضے کی پیشکش نہیں کریں گے، تو میں متبادل ماں بننا پسند نہیں کروں گی۔یہ سچ ہے کہ میں یہ کام رقم کیلئے کرتی ہوں، میری جیسی ہر متبادل ماں ایسا ہی سوچتی ہے، اگر لین دین پر پابندی لگ جائے تو مجھے نہیں لگتا کہ کل کوئی بھی خاتون مفت یہ کام کرنے کیلئے تیار ہوگی”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply