Written by prs.adminDecember 28, 2013
India’s Rampant Sand Mining – بھارتی سینڈ مائننگ
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
بھارت میں سینڈ مائننگ ایک اہم ماحولیاتی مسئلہ بن چکا ہے، سپریم کورٹ نے اس پر پابندی عائد کی ہے تاہم طاقتور گروپس اس حکم کی خلاف ورزی جاری رکھے ہوئے ہیں، ریاست کیرالہ میں ایک خاتون اس طاقتور مافیا کیخلاف تن و تنہا لڑ رہی ہے، اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
نئی دہلی کی جنتر منتر اسٹریٹ میں ایک چھوٹے سے خیمے میں ایک تیس سالہ خاتون اپنے روتے ہوئے بچے کو چپ کرانے کی کوشش کررہی ہے، اس کی ایک بیٹی ماں کے قریب بیٹھی ہے، جبکہ ایک قریبی بستر پر سو رہی ہے۔یہ جازیرا واڈکان ہیں، جو کیرالہ سے تعلق رکھتی ہیں۔
گزشتہ دو ماہ سے وہ اپنی ریاست میں سینڈ مائننگ پر پابندی لگوانے کیلئے نئی دہلی میں دھرنا دیئے بیٹھی ہیں۔
جازیرا واڈکان “وہ ہماری زندگیاں تباہ کررہے ہیں، وہ ہمارے ان علاقوں کو ختم کررہے ہیں جہاں ہم پلے بڑھے، ہمارے ساحل غائب ہوتے جارہے ہیں، ہم اپنی زمینوں سے محروم ہورہے ہیں، اگر اس کام کو فوری طور پر روکا نہ گیا تو پینے کے پانی کے ذرائع اور ہمارا مستقبل شدید خطرے کی زد میں آجائے گا”۔
انھوں نے تین سال قبل اپنے آبائی قصبے سے اس جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔
جازیرا “میں نے معلومات حاصل کی تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ کام غیرقانونی ہے، میں نے پولیس، ضلعی کلکٹر اور اعلیٰ عہدیداران سے رجوع کیا، انھوں نے مجھے یقین دلایا کہ مناسب اقدامات کئے جائیں گے، مگر کچھ بھی نہیں ہوا، اس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہ تو بہت بڑا مافیا ہے، سینڈ مائننگ پوری ریاست میں جاری ہے اور پولیس، حکومتی افسران اور سیاستدان سب اس میں ملوث ہیں، اس سب کے بعد میں نے خود اس مافیا کو سب کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا”۔
سینڈ مائننگ دیگر بھارتی ریاستوں میں بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، مگر کیرالہ میں یہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ ریشمی بھاسٹیرایک سماجی کارکن ہیں۔
ریشمی بھاسٹیر”کیرالہ کے دو دریا تو لگ بھگ تباہ ہوچکے ہیں، جن میں یا تو پانی نہیں رہا اور بہت زیادہ کم ہوچکا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے قریب گہرے گڑھے کھود کر ریت نکالی جارہی ہے، جس سے دریاﺅں میں پانی کی آمد کا نظام متاثر ہوا ہے، اسی نظام کے تحت پورے خطے کو پانی ملتا ہے، میں کہنا چاہتی ہوں کہ ایسا کیرالہ کے تمام دریاﺅں میں ہورہا ہے اور اس سے ہماری زرعی سرگرمیاں بھی انتہائی متاثر ہوئی ہیں”۔
کیرالہ میں حالیہ برسوں کے دوران تعمیراتی صنعت کو بہت زیادہ ترقی ملی ہے، تعمیراتی میٹریل کی بہت زیادہ مانگ خصوصاً ریت کی طلب کے باعث یہ صنعت دریاﺅں اور سمندروں کی ریت بڑے مقدار پر نکالنے کی ذمہ دار سمجھی جاتی ہے۔ بھارت میں ساحلوں اور دریاﺅں کے تحفظ کے قوانین تو موجود ہیں مگر ریشمی کا کہنا ہے کہ اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔
ریشمی “یہ مافیا مقامی انتظامیہ اور پولیس پر بہت زیادہ اثر رکھتا ہے، ریونیو ڈیپارٹمنٹ اور سیلز ٹیکس کا محکمہ بھی اس میں ملوث ہے، یہاں تک کہ سیاستدان اور مذہبی گروپس بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں، ہر ایک کا اپنا شیئر ہے”۔
یہ مائننگ گروپس مقامی باسیوں کو بھرتی کرکے ان کے ذریعے کام کرتے ہیں، اب یہ متعدد افراد کیلئے روزگار کا اہم ترین ذریعہ بن چکا ہے اور اس کام کے خلاف کسی بھی رکاوٹ کو اپنے روزگار پر حملہ تصور کرتے ہیں۔ جازیرانے جب احتجاج شروع کیا تو انہیں سب سے پہلے اپنے قریبی لوگوں سے ہی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
جازیرا”پوری برادری بہت زیادہ مشتعل ہوگئی تھی، خواتین میرے احتجاج کے دوران آکر مجھے تنگ کرتی تھیں، وہ کہتی تھیں کہ میں گلیوں میں کیا کررہی ہوں؟ کیا ایک مسلم خاتون کیلئے گلیوں میں اس طرح نکلنا درست ہے؟ کیا تمہاری شرم و حیا ختم ہوچکی ہے؟”
مقامی حکومت بھی جازیراکے مسلسل احتجاج سے بہت پریشان ہے، ایڈور پرا کاش ریاستی حکومت کے ایک وزیر ہیں۔
ایڈور پرا کاش”وہ اپنی حد سے تجاوز کررہی ہے، ہم نے اس کی شکایت پر ایکشن لیا، ہم نے متعلقہ محکموں سے رپورٹ طلب کی، جس کے ملنے کے بعد ہم نے ضروری اقدامات کئے، مگر اب وہ جو کررہی ہے وہ غیرضروری ہے اور کچھ سیاسی گروپس اس کی حمایت کررہے ہیں”۔
جازیرااب اپنے احتجاج کو نئی دہلی تک لے آئی ہیں، اور اس کے باعث سینڈ مائننگ کا مسئلہ دوبارہ اجاگر ہوا ہے سو مان دہلی یونیورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔
سو مان”یہ ایک ماحولیاتی مسئلہ ہے، جس کے پورے ملک پر اثرات مرتب ہورہے ہیں، جازیرابہت بہادر خاتون ہیں جو اس کے خلاف جدوجہد کررہی ہیں، میرے خیال میں تو یہ پورے معاشرے کا فرض ہے کہ وہ اس مسئلے کے خلاف جازیراکی لڑائی میں شامل ہو”۔
مگر متعدد افراد کا کہنا ہے کہ صرف قانونی اقدامات سے اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکتا، سوناندن، سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولیپہمنٹ سو سائٹیز سے تعلق رکھتے ہیں۔
“سوناندن مختلف گروپس کی جانب سے گھروں کی تعمیر کیلئے متبادل میٹریل کو تیار کرنے کی متعدد کوششیں کی جاچکی ہیں، اس سلسلے کو فروغ دیا جانا چاہئے، مگر یہاں حال تو یہ ہے کہ حکومت اپنی عمارات پر بھی کنکریٹ کا بے تحاشہ استعمال کرتی ہے، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ متبادل میٹریل کے حوالے سے شعور موجود نہیں اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی تحقیق وغیرہ کرائی جارہی ہے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | 4 | 5 | ||
6 | 7 | 8 | 9 | 10 | 11 | 12 |
13 | 14 | 15 | 16 | 17 | 18 | 19 |
20 | 21 | 22 | 23 | 24 | 25 | 26 |
27 | 28 | 29 | 30 | 31 |