Written by prs.adminMay 16, 2012
(India’s ‘national shame’) بھارتی قومی شرمندگی
Asia Calling | ایشیا کالنگ . Social Issues Article
بھارت دنیا میں کم خوراکی کا شکار سب سے بڑا ملک ہے۔ یہاں روزانہ پانچ ہزار سے زائد بچے خوراک نہ ملنے کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں
نئی دہلی کے نواح میں واقع Nutritional Rehabilitation Centre میں بیس بچوں کا وزن کیا جارہا ہے، ان میں سے اکثر بچے اپنی عمر کے مقابلے میں کم وزن کے حامل نکلے۔ ان میں سے ایک تین سالہ ببلو بھی ہے، جس کا وزن صرف نوکلو گرام ہے۔ ببلو کی والدہ سنتوش کا ایک بچہ دو برس قبل کم خوراکی کے باعث ہلاک ہوچکا ہے۔
سنتوش(Female) “ہم بہت غریب ہیں، اور میرے شوہر ہی پورے خاندان کیلئے کماتے ہیں۔ وہ سائیکل رکشہ کھینچنے کا کام کرتے ہیں، جس سے حاصل ہونیوالی رقم ہمارا پیٹ بھرنے کیلئے کافی نہیں ہوتی”۔
سنتوش کی بیٹی رانی سات سال کی ہوچکی ہے، وہ بھی انتہائی کمزور ہے، رانی اسکول جانا چاہتی ہے، تاہم اسے اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے کیلئے قالین بانی کا کام کرنا پڑتا ہے۔
رانی(female) “ہمارے پاس پیسے نہیں، ہمارے پاس کھانے کیلئے مناسب خوراک نہیں، جبکہ ہمیں متعدد مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اسکول نہیں جاپاتی”۔
دنیا میں بچوں کی فلاح کیلئے سب سے بڑا پروگرام بھارت میں چلایا جاتا ہے، جسے آئی سی ڈی ایس کا نام دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کا آغاز تیس برس قبل ہوا تھا۔ اس کے تحت ملک بھر میں بچوں کیلئے طبی اور نگہداشت مراکز چلائے جارہے ہیں، جہاں بچوں کی غذائی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے، تاہم آئی سی ڈی ایس کے باوجود ملک بھر میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں کم خوراکی کی شرح انتہائی تشویشناک ہے۔ رواں برس کے شروع میں سامنے آنے والے ایک سروے کے مطابق پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد 160 ملین ہے، جن میں سے 42 فیصد انتہائی تشویشناک حد تک غذائی کمی کا شکار ہیں، تاہم حقیقی اعدادوشمار سروے سے زائد ہیں۔ اس سروے کو ایک این جی او Nandi Foundation نے کیا تھا، Rohini Mukherjee سروے ٹیم کی سربراہ ہیں۔
(female) Rohini Mukherjee “ہمارا تخمینہ ہے کہ کم خوراکی کے شکار بچوں کی تعداد ساٹھ فیصد سے زائد ہے جو کہ انتہائی تشویشناک امر ہے۔ ان میں ماﺅں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے ہمیں طویل المعیاد حکمت عملی درکار ہے، جبکہ سرمائے کے ساتھ ساتھ حکومتی عزم کے ساتھ ہی ہم کم خوراکی پر قابو پاسکتے ہیں”۔
بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ اس سروے کے نتائج پر انتہائی پریشان ہوگئے تھے۔
من موہن سنگھ(male) “اتنی بڑی تعداد میں خوراک کے منتظر بچوں کے ہوتے ہوئے ہم ملک کے روشن مستقبل کی توقع نہیں کرسکتے۔ کم خوراکی کا یہ مسئلہ قومی شرمندگی کا سبب ہے،ملک کی شاندار اقتصادی ترقی کے باوجود ملک میں غذائی کمی کے شکار بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہم اس مسئلے پر قابو پانے میں تاحال کامیاب نہیں ہوسکے ہیں”۔
گزشتہ ماہ بچوں کے عالمی ادارے یونیسیف نے بھی بھارت کے حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی، جس کے مطابق ملک میں کم خوراکی کے شکار خاندانوں کی شرح 47 فیصد سے تجاوز کرچکی ہے، اور بھارت اس مسئلے سے نمٹنے میں پڑوسی ممالک بنگلہ دیش اور سری لنکا سے پیچھے رہ گیا ہے۔ Viraj Patnayak ایک فلاحی ادارے Right to Food campaign کے رکن ہیں۔
(male) Viraj Patnayak “ہمارے بچوں میں کم خوراکی کی شرح غریب ترین افریقی ممالک سے بھی دوگنا زائد ہے۔ سب سے خوفناک حقیقت یہ ہے کہ ہم دنیا میں تیزی سے اقتصادی ترقی کرنے والے ملک کے باسی ہیں، بہت سے ممالک جو معاشی لحاظ سے بھارت کے مقابلے میں کمزور ہیں، وہ بچوں کی نگہداشت کے حوالے سے بھارت سے آگے ہیں۔جنوبی ایشیا بچوں میں کم خوراکی کے حوالے سے بدترین خطہ ہے، جو کہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے”
صرف بچے ہی نہیں بڑے بھی اس مشکل کا شکار ہیں۔ سماجی کارکن اور طبی ماہر ڈاکٹر Binayak Sen ریاست جھاڑکھنڈ کے قبائلی افراد کیلئے کام کرتے ہیں۔
(male) Binayak Sen “بھارت کی 37 فیصد بالغ آبادی کم خوراکی کا شکار ہے، عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کسی ملک کے چالیس فیصد افراد کم خوراکی کا شکار ہوں تو اس ملک کو قحط زدہ قرار دیدیا جانا چاہئے۔ اگر اس پیمانے کا اطلاق کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ بھارتی عوام اس وقت شدید قحط سالی کا شکار ہیں”۔
اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے نئی کوششیں کی جارہی ہیں، بھارت کی مرکزی کابینہ نے ایک قانون کی منظوری دی ہے، جس کے تحت ملک کی دوتہائی آبادی کو سستے داموں خوراک فراہم کی جائے گی، اب اس قانون کو پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے گا۔اس کے علاوہ بجٹ میں بھی کم خوراکی کے شکار دو سو اضلاع کے حوالے سے متعدد منصوبے تجویز کئے گئے ہیں۔ اس وقت بھارت میں کم خوراکی پر قابو پانے کیلئے سول سوسائٹی بھی متحرک ہوگئی ہے، جس نے Citizen’s Alliance Against Malnutrition کے نام سے تحریک شروع کی ہے۔ Jay Panda اس تحریک میں شامل رکن پارلیمنٹ ہیں۔
(male) Jay Panda “ہم اس مسئلے پر عوامی شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں، اور اس مسئلے کے حل کو اپنی پہلی ترجیح بنانا چاہتے ہیں۔ہم سیاست کو پس پشت ڈال کر یہ کام کررہے ہیں، ہم اپنی نوجوان آبادی کو کم خوراکی سے بچانا چاہتے ہیں، تاکہ ملک کو کسی بدترین سانحے سے بچایا جاسکے”۔
اس تحریک نے تین مختلف ریاستوں کے تین اضلاع میں ایک منصوبہ شروع کیا ہے، تاکہ یہاں کم خوراکی کا مقابلہ کیا جاسکے۔Jay Panda اس بارے میں بتارہے ہیں۔
(male) Jay Panda “مثال کے طور پر ہمارے ملک کی 92 فیصد ماﺅں کو غذائیت کی اہمیت ہی معلوم نہیں، حالانکہ بچوں کی صحت مندی کیلئے ماں کا دودھ انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح ہماری کئی رسومات جیسے کم عمری کی شادیاں بھی کم خوراکی کے مسئلے کو بڑھا دیتی ہیں، جس پر ہم قابو پانا چاہتے ہیں”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply