Written by prs.adminAugust 12, 2013
India’s Dance bars To Reopen – بھارتی ڈانس بارز
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
بھارتی شہر ممبئی میں اس کے معروف ڈانس بارز جلد واپس آنے والے ہیں، کیونکہ سپریم کورٹ نے آٹھ سال بعد ریاستی حکومت کی جانب سے بند کرائے گئے ان بارز کو کھولنے کا حکم دیدیا ہے۔ اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
بتیس سالہ ریشمی ایک ریسٹورنٹ میں ویٹریس کی حیثیت سے کام کرتی ہے، ڈانس بار میں رقص کرکے روزگار کمانے والی ریشمی کیلئے یہ کام کافی مشکل ثابت ہوا۔
ریشمی”جب میں ڈانس بار میں تھی تو ہمارا اپنا گھر تھا، ہمارے بچے اچھے اسکولوں میں پڑھ رہے تھے اور ہمارے خاندان اچھی زندگی گزار رہا تھا۔ ہم محنت سے کام کرکے اپنے پیشے سے اچھی آمدنی حاصل کررہے تھے، اور ہمیں کسی قسم کے جبر کا احساس نہیں ہوتا تھا اور ہم خود بھی ایسا نہیں کرنا چاہتے تھے، مگر آج ہمارے پاس گھر نہیں، ہمارے بچے اسکولوں سے باہر ہین اور پورا خاندان بکھر چکا ہے”۔
ممبئی کی نائٹ لائف میں ڈانس بار کو تاج کے ہیروں سے تشبیہ دی جاتی تھی، ریشمی جیسا رقاصائیں معروف گانوں پر رقص کرکے پیسے کماتی تھیں، اور اکثر لوگ ان پر نوٹوں کی بارش بھی کردیتے تھے۔تاہم آٹھ سال قبل حکومت نے ڈانس بارز بند کرنے کی ہدایت کردی، اسکا کہنا تھا کہ یہ بارز معاشرے کو خراب کررہے ہیں۔ آر،آر پاٹیل ریاست مہاراشٹر کے وزیر داخلہ ہیں۔
پاٹیل”یہ بارز لائسنس کی شرائط کی کھلی خلاف ورزی کررہے تھے، اس کے علاوہ ہمارے خیال میں ان ڈانس بارز میں خواتین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہورہا تھا، انہیں بے وقار کیا جارہا تھا، یہی وجہ ہے کہ کافی بحث کے بعد ریاستی اسمبلی نے متفقہ طور پر ان بارز پر پابندی کی منظوری دی”۔
اس پابندی سے قبل ستر ہزار سے زائد خواتین ریاست بھر کے چودہ سو ڈانس بارز میں کام کررہی تھیں، ورشا کالے، بار گرلز ایسوسی ایشن کی سربراہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس پابندی نے ان کی حالت قابل رحم بنادی ہے۔
کالے”کچھ نے تو خودکشیاں کرلیں، جبکہ متعدد کا خاندان ٹوٹ گیا۔ پہلے تو ہمیں لگ رہا تھا کہ صرف ڈانسرز کو ہی مشکالت کا سامنا ہے، مگر ویٹرز اور گلوکار وغیرہ بھی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور وہ بھی غریب ہوگئے ہیں”۔
ریشمی کا کہنا ہے کہ کچھ ڈانسرز تو جسم فروشی پر بھی مجبور ہوگئیں۔
ریشمی”اس سے قبل کوئی بھی کسی ڈانسر کو کسی چیز پر مجبور نہیں کرسکتا تھا، مگر بارز کی بندش کے بعد خواتین جسم فروشی پر مجبور ہوگئیں، وہ اپنا آفروخت کرنے لگیں اور اس کام میں وہی لوگ آگے نطر آئے جنھوں نے پابندی کی حمایت کی تھی”۔
بار ڈانسرز اور مالکان نے اس پابندی کو عدالت میں چیلنج کیا تھا، حکومت کا الزام تھا کہ یہ بارز فحاشی اور غیراخلاقی سرگرمیوں کا مرکز ہیں، تاہم ایک بار کے مالک پروین اگروال کا کہنا ہے کہ ان الزامات کو ثابت نہیں کیا جاسکا۔
پروین”بار پر لگائے گئے الزامات کے حوالے سے وہ کچھ بھی غلط ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے، انھوں نے پولیس کے ذریعے اپنی طاقت دکھاتے ہوئے ان لڑکیوں کو قربانی کی بکریوں کی طرح استعمال کیا اور ان پر دھڑا دھڑ مقدمات قائم کئے گئے”۔
پہلے بمبئی ہائیکورٹ اور پھر اب چھ سال بعد سپریم کورٹ نے ڈانس بارز پر سے پابندی ختم کرنے کا حکم سنایا ہے، ایڈووکیٹ آنند گروور نے سپریم کورٹ میں بار ڈانسرز کی پیروی کی۔
آنند”اس حکم میں خواتین کے اس حقوق کا خیال رکھا گیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کا کام کرنے کیلئے آزاد ہیں، وہ لوگ جو معاشرتی اخلاق کے نام پر اپنی مرضی دوسروں پر تھوپنا چاہتے ہیں اور وہ جو سوچتے ہیں کہ پروپگینڈا کرکے لوگوں سے اپنی مرضی کے کام کرائے جاسکتے ہیں، انہیں سپریم کورٹ نے سختی سے مسترد کردیا ہے”۔
تاہم اس فیصلے کے بعد متعدد حلقوں کی جانب سے تنقید بھی سامنے آرہی ہیں، جن میں کچھ خواتین گروپس بھی شامل ہیں۔ رانجھنا کماری نئی دہلی کے ایک گروپ سینٹر فار سوشل ریسرچ کی ڈائریکٹر ہیں۔
رانجھنا کماری”عالمی ادارہ محنت کے کنونشن جس پر بھارت نے بھی دستخط کئے ہیں، میں کہا گیا ہے کہ ہر ورکرز کو معقول و شائستہ کام کرنے کا حق حاصل ہے، جبکہ بار ڈانسرز کے کام کو کوئی اچھا کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ آخر یہ خواتین کیوں رقص کرتی ہٰں؟ چند شرابی مردوں کے مزے کیلئے وہ یہ کام کرتی ہیں، اگر خواتین کو اس طرح استعمال کیا جانا باوقار زندگی اور مناسب کام دونوں حقوق کے خلاف ہے”۔
ریاست کا حکمران اتحاد بھی اس فیصلے پر خوش نہیں، وزیر داخلہ پٹیل کا کہنا ہے کہ حکومت اس فیصلے کیخلاف نظرثانی اپیل دائر کرے گی۔
پٹیل”سب مطالبہ کررہے ہیں کہ ڈانس بارز کو دوبارہ کھولنے کی اجازت نہ دی جائے، ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو پابندی برقرار رکھنے کیلئے ضرورت پڑنے نیا قانون بنانا چاہئے”۔
ڈانس بارز دوبارہ لائسنس حاصل کرنے کے بعد ہی کھل سکیں گے، بار ڈانسرز جیسے ریشمی اس فیصلے پر خوشیاں منارہی ہیں۔
ریشمی”ہمیں توقع ہے کہ حکومت ہمیں وہ آزادی اور زندگی دے گی جو آٹھ برس قبل ہمیں میسر تھی”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |