(Indians Protest Against Nuclear Power ) جوہری توانائی کیخلاف بھارتیوں کا احتجاج
(Indians Protest Against Nuclear Power ) جوہری توانائی کیخلاف بھارتیوں کا احتجاج
(India nuclear) بھارتی جوہری توانائی
بھارتی حکومت نے حال ہی میں جوہری پاور پلانٹ کے خلاف احتجاج کرنیوالی چار این جی اوز پر غیر ملکی سازش میں ملوث ہونیکا الزام عائد کیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان این جی اوز کو بیرون ملک سے فنڈز مل رہے
فوکو شیما اور وہاں ہونے والے سانحے کو یاد رکھو، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جوہری توانائی کے نقصانات کیا ہے۔ یہ وہ گیت ہے جو ایک درجن سے زائدخواتین بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں جوہری توانائی کے خلاف مظاہرے کے دوران گا رہی تھیں۔
مظاہرے میں شامل کئی افراد دو ہزار کلو میٹر دور جنوب میں واقع علاقے Kudankulamسے یہاں آئے ہیں۔ریاست تامل ناڈو کے اس علاقے Kudankulam میں اس وقت ایک جوہری پاور پلانٹ زیرتعمیر ہے۔ یہ پلانٹ روسی حکومت کے تعاون سے تعمیر کیا جارہا ہے، اورتعمیر مکمل ہونے کے بعد یہ بھارت کا سب سے بڑا جوہری پلانٹ ہوگا، جہاں سے دو ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی۔ تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والی ماہی گیر خاتون Sagaya Yanida بھی احتجاجی مظاہرے میں شریک ہوئے۔
Sagaya Yanida(female)”ہم کینسر نہہیں چاہتے، ہم اپنے جسموں کو بدنما نہیں بنانے چاہتے، ہم اپنے بچوں کو بیماریوں سے بچانا چاہتے ہیں۔ ہم فوکوشیما میں پیش آنیوالا جوہری سانحہ دیکھ چکے ہیں، ہمیں معلوم ہے جوہری تابکاری کے اثرات نسلوں تک برقرار رہتے ہیں۔ ہم اس منصوبے کی فوری بندش کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہمیں ایسی بجلی کی ضرورت نہیں جو ہماری زندگیوں کو خطرے سے دوچار کردے”۔
اس پلانٹ کی تعمیر 1980ءکی دہائی کے آخر میں شروع ہوئی تھی اور شروع سے ہی اس کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا تھا۔
گزشتہ برس جاپان میں جوہری سانحے کے بعد Kudankulam کے ہزاروں مقامی ماہی گیر بھی اس احتجاج کا حصہ بن گئے۔ چند ماہ قبل اس زیرتعمیر پلانٹ کے ارگرد رہائش پذیر دیہاتیوں نے شاہراﺅں کو بلاک کرکے بھوک ہڑتال کی اور تعمیراتی کام بند کروا دیا۔ تاہم ایک صحافی Pallav Bagla کا کہنا ہے کہ مظاہرین صرف اپنی برادریوں کو ہی نقصان پہنچا رہے ہیں۔
Pallav Bagla(male)”اس منصوبے کی بندش سے تامل ناڈو خصوصاً ان مظاہرین پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے، کیونکہ انہیں ایک ہزار میگاواٹ بجلی نہیں مل سکے گی۔ اس وقت تامل ناڈو میں گیارہ گیارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، جبکہ پورا جنوبی خطہ بجلی کے شدید بحران کی زد میں ہے، اور تمام ریاستیں اس جوہری پلانٹ سے پیداوار چاہتی ہیں”۔
فوکوشیما سانحے کے بعد بھارتی حکومت نے عوامی خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی، اور لوگوں کو بتایا کہ جاپان کے برعکس یہ بھارتی جوہری پلانٹ سونامی طوفان یا زلزلے کی پٹی میں واقع نہیں۔Srikumar Banerjee بھارتی جوہری کمیشن کے چیئرمین ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ پلانٹ کے تحفظ کے لئے اعلیٰ معیار کو اپنایا گیا ہے۔
Srikumar Banerjee(male)”ہم اس بات کو جانتے ہیں کہ فوکوشیما سانحہ درجہ حرارت پر قابو پانے کے خراب نظام کی وجہ سے ہوا، ہم نے اس حوالے سے موثر ترین انتظامات کئے ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں کسی قسم کے سانحے کا خطرہ درپیش نہیں”۔
تاہم ان یقین دہانیوں کے باوجود نو برس قبل اترپردیش میں واقع ایک جوہری پلانٹ سے چھ ٹن تابکار مواد لیک ہو گیا تھا، جس سے ثابت ہوا ہے کہ حفاظتی اقدامات ہمیشہ بہترین نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ مظاہرین اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں۔دوسری جانب حکومت نے الزام لگایا ہے کہ مظاہرین کو غیر ملکی گروپس کی جانب سے فنڈز مل رہے ہیں۔ وزیراعظم من موہن سنگھ نے یہ الزامات عائد کئے، جبکہ روس نے بھی بھارتی حکومت کے موقف کی حمایت کی۔ Alexander Kadakin بھارت میں روسی سفیر ہیں۔
Alexander Kadakin(male)”ہمیں بھی اسی بات کا شبہ ہے، جس کی وجہ ہے کہ یہ احتجاج اچانک شروع ہوا ہے، اور یہ احتجاج دنیا کے سب سے محفوظ ترین جوہری پلانٹ کے خلاف ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بھارتی وزیراعظم کے بیان کو ٹھیک مانتے ہیں”۔
تاہم مظاہرین نے ان الزامات کو مسترد کردیا ہے۔S. P. Udaikumar احتجاجی رہنماءہیں۔
S. P. Udaikumar(male)”عوامی جدوجہد کا احساس کرنے کی بجائے وزیراعظم ہم پر امریکہ اور یورپی ممالک سے فنڈز لینے کا الزام عائد کررے ہیں۔ اگر وہ اپنے الزامات ثابت کردیں تو ہم ہر سزا بھگتنے کیلئے تیار ہیں، تاہم اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو انہیں حکومت اور سیاست چھوڑ دینی چاہئے”۔
بھارت میں دیگر نصف درجن جوہری پلانٹس کو بھی مقامی برادریوں کے اسی قسم کے احتجاج کا سامنا ہے۔ ریاست پنجاب اور
ہریانہ میں کاشتکاروں نے مجوزہ جوہری پلانٹ کے خلاف عدالت میں درخواست بھی دائر کردی ہے۔ Krishan Shivaj ہریانہ کے کاشتکار ہیں۔انکا کہنا ہے کہ ان کے کئی ساتھی احتجاج کے دوران بھوک ہڑتال اور پولیس کے تشدد کے باعث ہلاک ہوچکے ہیں۔
Krishan Shivaj(male)”ہمارے دو ساتھی کاشتکار 490 دن سے جاری احتجاج کے دوران مر چکے ہیں، اگرچہ ہم نے کسی قسم کا پرتشدد احتجاج نہیں کیا، مگر حکومت ہماری بات سننے کیلئے تیار نہیں۔ ہماری زمینوں میں ایک سال کے دوران چار فصلیں کاشت ہوتی ہیں، آکر وہ اس زرخیر زمین پر جوہری پلانٹ کیسے تعمیر کرسکتے ہیں؟ اور ایسا ہونے کی صورت میں ہم کیا کریں گے؟ آخر ہمارے جیسے غریب ملک کو جوہری توانائی کی کیا ضرورت ہے جو پہلے ہی متعدد مشکلات سے دوچار ہے؟”
بھارت میں اس وقت بیس کے لگ بھگ جوہری پلانٹس کام کررہے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کو درپیش بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے مزید جوہری پلانٹس کی ضرورت ہے، تاہم ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ بھارت کسی قسم کے جوہری سانحے سے نمٹنے کیلئے تیار نہیں۔ گوپال کرشنا ایک ماحولیاتی گروپ Toxic Watch Alliance کے سربراہ ہیں۔
کرشنا(male)”سیکرٹری صحت کا کہنا ہے کہ اس وقت جوہری سانحے سے نمٹنے کیلئے کسی قسم کا ہیلتھ انفراسٹرکچر موجود نہیں۔ ہمارے ملک میں تو پانی میں جوہری تابکاری کی مقدار جانچنے کی صلاحیت بھی موجود نہیں، تو پھر ہم ایسے نظام پر اعتبار کیسے کرسکتے ہیں؟”
دو سال قبل دہلی کے قریب Mayapuri کے علاقے میں تابکاری کی شرح خطرناک حد تک پہنچ گئی تھی، عالمی ماحولیاتی ادارے گرین پیس نے اس واقعے کو بھارتی حکومت کیلئے انتباہ قرار دیا تھا۔ گوپال کرشنا اس حوالے سے اظہار خیال کررہے ہیں۔
کرشنا(male)”حکومت کے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے قائم ادارے نے واضھ طور پر کہا ہے کہ ملک کی توانائی کی اسی فیصد ضروریات توانائی کے متبادل ذرائع سے پوری کی جاسکتی ہیں۔ تو حکومت کو غیر نقصان دہ ذرائع پر توجہ دینی چاہئے۔ میرے خیال میں تو جمہوری مینڈیٹ بھی جوہری توانائی کے خلاف ہے، Jaitapur، فتح آباد اور Kudan Kulma میں عوامی احتجاج سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کو جوہری توانائی کے حوالے سے عوامی مینڈیٹ حاصل نہیں”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply