Written by prs.adminAugust 23, 2013
Indian Widows Still Struggling to Live – بھارتی بیواﺅں کو مشکلات کا سامنا
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
بھارتی قصبے ورنداوان کو بیواﺅں کا شہر بھی کہا جاتا ہے، یہاں انتہائی مشکل حالات میں بیس ہزار کے لگ بھگ بیوائیں مقیم ہیں، بھارتی سپریم کورٹ نے حال ہی میں حکومت کو ان بیوہ خواتین کا طرز زندگی بہتر بنانے کا حکم دیا ہے، اسی بارے میں سنتے ہیںآج کی رپورٹ
تراسی سالہ بیوہ خاتون میرا رانی نے ہمیں وہ کمرہ دکھایا جہاں وہ سولہ سال سے مقیم ہیں، یہ ایک چھوٹا سا کوٹھری جیسا گھر ہے جس میں کوئی کتا بھی آرام سے نہیں رہ سکتا۔
میرا”میں کیا کرسکتی ہوں؟ کوئی بھی میرا خیال نہیں کرتا، میرا کوئی خاندان نہیں، میں صرف بھگوان کو ہی جانتی ہوں اور وہی میرا خیال رکھتا ہے”۔
میرا کے شوہر کی وفات کے بعد بچوں نے انہیں گھر سے نکال دیا تھا، جس کے بعد وہ ورندوان چلی آئیں، یہاں پانچ ہزار کے قریب مندر ہیں کیونکہ ہندوﺅں کے خیال میں بھگوان کرشن یہاں پیدا ہوئے، اونچی ذات کی ہندو بیوائیں، جنھیں ان کے خاندان رکھنے سے انکار کردیتے ہیں، وہ یہاں گیسٹ ہاﺅسز، پناہ گاہوں یا دیگر جگہیوں پر مقیم ہوجاتی ہیں۔
یہ بیوائیں گزارے کے اخراجات کیلئے مندروں میں بھجن گاتی ہیں، 91 سالہ گنگا داسی ایک کمپاﺅنڈ میں دیگر چالیس خواتین کے ساتھ مقیم ہیں، یہاں روشنی نہ ہونے کے برابر ہے۔
گنگا”مجھے کچھ یاد نہیں، مجھے یہاں آئے کافی عرصہ ہوچکا ہے، کوئی بچیس سے چھبیس سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے، میری ایک بیٹی ہے اور اس کا نام ہے”
انہیں اپنی بیٹی کا نام بھی یاد نہیں، گنگا کی بیٹی ہیری ڈسی بھی بیوہ ہے۔
ہیری”آج کے بچے پیسے کمانے میں بہت زیادہ مصروف ہوگئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ گھر میں تنہا رہنے کی بجائے یہاں رہنا زیادہ بہتر ہے، بھگوان کا گھر میرے اپنے گھر سے زیادہ بہتر ہے، میرا کوئی بھائی نہیں اور ایک بیٹی کی حیثیت سے میں یہاں رہ کر اپنی ماں کی دیکھ بھال کرنا چاہتی وہں، میرے بیٹے نے مجھے کہہ دیا ہے کہ میں یہاں اس وقت تک رہوں جب تک مر نہ جاﺅ”۔
بھارتی ہندو قوم پرست خاندانوں میں اکثر بیواﺅں کو انکے شوہروں کی موت کا ذمہ دار قرار دیدیا جاتا ہے، جس کے بعد انکی معاشرتی زندگی ختم کردی جاتی ہے۔
ہیری دیسی ایک مقامی مندر میں تیس ڈالر ماہانہ کے عوض بھجن گاتی ہیں۔
ہیری دیسی”بارش سے میرا کمرہ تباہ ہوگیا ہے، اور ہمارے پاس پینے کے پانی تک رسائی کا کوئی ذریعہ بھی نہیں کیونکہ پائپ بھی ٹوٹ گیا ہے، میں نے تیس ڈالرز اس کی مرمت پر لگادیئے ہیں، میں نے وہ رقم بھی خرچ کردی جس سے میں اپنی والدہ کیلئے دودھ لیتی تھی”۔
کچھ فلاحی ادارے اور این جی اوز کی جانب سے ان بیواﺅں کی مدد کیلئے پروگرامز چلائے جارہے ہیں، انہیں تیکنیکی تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ روزگار حاصل کرسکیں۔ مقامی مخیر شخص بابا رام جی اور ان کی تنظیم اکشیا پترا کی جانب سے ان بیواﺅں کو گزشتہ دو برس سے دوپہر کو مفت کھانا اور ادویات فراہم کی جارہی ہیں۔
بابا رام جی” ورندوان میں موجود بیوائیں بھگوان کرشن کی مہمان ہیں، ان کی خدمت کرنا میرا فرض ہے، اگر میرے مہمان خوش ہوں گے تو بھگوان بھی خوش ہوں گے”
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ان خواتین کو درپیش مسئلے سے آگاہ ہے، قومی خواتین کمیشن کے بقول اس نے اترپردیش حکومت پر زور دیا ہے کہ ان بیواﺅں کو صاف ستھرا ماحول اور مناسب خوراک فراہم کی جائے۔ ممتا شرما اس کمیشن کی سربراہ ہیں۔
ممتا”یہ خواتین مناسب پناہ گاہوں سے محروم ہیں، اور اگر کسی کے پاس ہے بھی تو بھی وہ انتہائی گندی جگہ ہوتی ہے جہاں نکاسی آب، پینے کے پانی اور خوراک وغیرہ تک رسائی نہیں ہوتی۔ بیوائیں اپنی بقاءکیلئے بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاتی ہیں، ہم انکے روزگار کیلئے کاٹیج انڈسٹریز اور گھروں کی تعمیر کی کوشش کررہے ہیں تاکہ وہ وقار کیساتھ زندگی گزار سکیں”۔
گزشتہ سال بھارتی سپریم کورٹ نے اس حوالے سے حکومت کو حکم دیا تھا کہ ان بیواﺅں کے طرز زندگی کو بہتر بنایا جائے۔سرکاری ادارے نیشنل لیگل سروسز اتھارٹی نے ان بیواﺅں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کی تجویز دی ہے، تاہم ایک بیوہ خاتون موری دیسی کے مطابق حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔
موری”مجھے اب تک اپنا کارڈ یا پنشن نہیں ملی، سرکاری افسران کا کہنا ہے کہ ہم میں سے کچھ کو پنشن مل رہی ہے مگر ہمیں ابھی تک کچھ نہیں ملا، متعدد افسران یہاں آئے ہماری تصاویر لیں اور چلے گئے، مگر پھر کچھ بھی نہیں ہوا”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |