(India gas tragedy victims boycott London Olympics) بھارتی گیس سانحے کے متاثرین لندن اولمپکس کے بائیکاٹ کے خواہشمند
بھوپال میں 1984ءمیں ہونیوالے گیس سانحے کے متاثرین نے بھارتی حکومت سے لندن اولمپکس کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے، جس کی وجہ ان مقابلوں کے اسپانسرز میں Dow Chemicals کی موجودگی ہے، جس کی ذیلی کمپنی کے کیمیکل پلانٹ میں 1984ءمیں گیس سانحہ پیش آیا تھا۔
ہمیں انصاف چاہئے، یہ وہ نعرہ ہے جو 1984ءمیں بھوپال گیس سانحے کے سینکڑوں متاثرین نئی دہلی میں ریلی کے دوران لگا رہے تھے۔ مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں بینرز بھی اٹھا رکھے تھے، جس پر لکھا تھا کہ Dow بھوپال سانحے کی ذمہ دار ہے۔ ان مظاہرین میں باون سالہ سنیل کمار بھی شامل ہیں، جن کی والدہ دنیا کے بدترین صنعتی سانحے میں چل بسی تھیں۔
کمار(male)”اولمپکس گیمز میں Dow کمپنی کو حصہ بنانے کی اجازت دینا گیس سانحے کے متاثرین کے منہ پر تھپڑ ہے۔ اس کمپنی نے اپنی ذمہ داریاں مکمل نہیں کیں اور متاثرین کو زرتلافی اور دیگر بقیہ جات ادا نہیں کئے۔ لندن اولمپکس میں اس کی شمولیت ناقابل برداشت ہے اور ہر شخص کو اس کی مخالفت کرنی چاہئے”۔
اس طرح کے مظاہرے بھارت اور بیرون ملک میں ہورہے ہیں، جن میں انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ Dow کیمیکلز کو رواں برس ہونیوالے اولمپکس مقابلوں کے اسپانسرز کی فہرست سے نکالا جائے۔ Dow امریکہ کی ایک کثیرالملکی کمپنی ہے اور یونین کاربائیڈ کارپوریشن کی ملکیت بھی اس کے پاس ہے۔ اس کمپنی نے وسطی بھارت کے شہر بھوپال میں ایک کیڑے مار ادویات کی فیکٹری کھول رکھی تھی جہاں 28 برس قبل گیس سانحہ پیش آیا۔اس فیکٹری سے چالیس ٹن زہریلی گیس خارج ہوگئی جس کے باعث چار ہزار افراد ہلاک ہوگئے جبکہ بیس ہزار سے زائد دو دہائیوں سے مختلف امراض کا سامنا کررہے ہیں۔Dow نے یونین کاربائیڈ کارپوریشن کو 1999ءمیں خریدا تھا اور اب یہ کارپوریشن لندن اولمپکس کے اسپانسرز میں شامل ہے۔ Satinath Sarangi بھوپال متاثرین کی قائم کردہ ایکشن کمیٹی کے رکن ہیں۔
Satinath Sarangi(male)” Dowاپنی قانونی ذمہ داریوں سے جان چھڑا رہی ہے، یہ حقیقت ہے کہ Dow کے اوپر شہریوں کے واجبات باقی ہیں، جبکہ وہ بھوپال میں ماحولیاتی تباہی کی بھی ذمہ دار ہے۔ اس نے اب تک متاثرین کو مکمل معاوضہ ادا نہیں کیا، جبکہ اس نے گیس سانحے کے بعد زیرزمین پانی میں زہر شامل ہونے کے حوالے سے بھی کچھ نہیں کیا۔ ابھی
بھی چالیس ہزار افراد اس زہریلے پانی کے باعث مشکلات کا شکار ہیں، جبکہ معذور بچوں کی پیدائش کا سلسلہ جاری ہے”۔
ان کا کہنا ہے کہ Dow کی اسپانسر شپ سے اولمپکس مقابلوں کے نیک مقاصد کو نقصان پہنچا ہے۔
Sarangi(male)”اولمپکس مقابلے عالمی بھائی چارے اور بین الاقوامی امن کو فروغ دینے کیلئے ہوتے ہیں۔ یہ کھیلوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، مگر ہمیں Dow کی پیدا کردہ صورتحال کے باعث ہر سال ایسے سینکڑوں بچوں کی پرورش کرنا پڑ رہی ہے جو کبھی جان ہی نہیں پاتے کہ کھیل ہوتے کیا ہیں۔ وہ کھیلوں سے دور رہنے پر مجبور ہیں، کیا Dow کے اشتراک سے ہونیوالے اولمپکس واقعی اولمپکس ہیں؟ یہ ان مقابلوں کی اصل روح کی خلاف ورزی ہے”۔
بھوپال متاثرین کی Dow کیخلاف مہم نے متعدد بھارتی اور غیر ملکی کمپنیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے، ایک درجن سے زائد برطانوی اراکین پارلیمنٹ جیسے Keith Vaz نے بھی ان مظاہروں میں شرکت کی ہے۔
Keith Vaz(male)”ہم لندن اولمپکس کو تاریخ کے سب سے بہترین مقابلے بنانا چاہتے ہیں، اور یہ صرف Dow کو اسپانسر شپ سے ہٹا کر ہی ممکن ہے”۔
اس تنازعے کے باعث اولمپکس مقابلوں کی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداران بھی اپنے عہدوں سے مستعفیٰ ہورہے ہیں۔ Meredith Alexander اولمپکس 2012ءکی سابق اخلاقی کمشنر ہیں، انکا کہنا ہے کہ وہ Dow کا دفاع کرنا نہیں چاہتی۔
Meredith Alexander(female)”مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آخر کوئی شخص کیسے ایک کمپنی جیسے Dow کا دفاع کرسکتا ہے۔ بھوپال سانحہ انسانی تاریخ کا ایک بدترین صنعتی سانحہ ہے، میرے خیال میں کمپنی کو اپنے دفاع میں بولنے کا بہترین موقع ملا ہے، مگر سانحے کے متاثرین کو بولنے کے زیادہ مواقع نہیں دیئے گئے، میں نے مستعفیٰ ہونے کا فیصلہ بھی اس لئے کیا تاکہ عوام کے سامنے اصل کہانی لاسکوں”۔
انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی نے Dow کی اسپانسر شپ ختم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ کمیٹی کے مطابق بھوپال میں زہریلی گیس کے اخراج سے پیش آنیوالے سانحے کی Dow ذمہ دار نہیں، تاہم اب بھارتی حکومت پر دباﺅ بڑھ رہا ہے کہ وہ عالمی مقابلوں کا بائیکاٹ کردے۔ Rachna Dhingra بھوپال سانحے کے متاثرین کے لئے کام کرنے والی سماجی کارکن ہیں۔
Rachna Dhingra(female)”یہ بھارتی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اپنے عوام کیلئے کھڑی ہوکر اس بات کو یقینی
بنائے کہ Dow کو لندن اولمپکس کی اسپانسر شپ سے ہٹایا جائے۔ ہم بھارتی حکومت سے چاہتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے واضح موقف اپنائے اور کہے کہ اگر اس کمپنی کو ہٹایا نہ گیا تو ہم اولمپکس میں شرکت نہیں کریں گے”۔
سابق بھارتی اولمپیئن اسلم شیر خان ان ایتھلیٹس میں شامل ہیں جو بائیکاٹ کے مطالبے کی حمایت کررہے ہیں۔
اسلم شیر خان(male)”ہمیں ملکر دباﺅ ڈالنا چاہئے، ہماری اولمپکس ایسوسی ایشن اور حکومت کو بھارتی عوام کے حق میں بولنا چاہئے اور آئی او سی پر Dow کی اسپانسر شپ واپس لینے کیلئے دباﺅ ڈالنا چاہئے۔Dowکی اسپانسر شپ سے صرف بھوپال کے عوام کو تکلیف نہیں پہنچے گی بلکہ پوری قوم کے جذبات متاثر ہوںگے”۔
اگرچہ حکومت نے اس حوالے سے اپنا موقف تاحال واضح نہیں کیا،تاہم بہت سے حلقے مقابلوں کے بائیکاٹ کے خیال کی مخالفت کررہے ہیں۔ وی کرشنا سوامی ایک سنیئر اسپورٹس صحافی ہیں۔
کرشنا سوامی(male)”ہمیں کھلاڑیوں کے مفادات کا بھی خیال رکھنا چاہئے،ہمیں کھلاڑیوں کے کندھے کا استعمال کرکے دوسروں کو ہدف بنانے کا سلسلہ بند کرنا ہوگا، ہمارے ملک میں پاکستان کے خلاف جنگ ہو یا چین کے ساتھ تنازعہ، ہدف کھلاڑی ہی بنتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ تصور غلط اور کھلاڑیوں کے ساتھ ناانصافی ہے”۔
ونود شرما بھارتی روزنامے ہندوستان ٹائمز کے سیاسی ایڈیٹر ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ اس حوالے سے بائیکاٹ کا فیصلہ کوئی اچھا اقدام نہیں ہوگا، ان کے خیال میں بھارت کو گیمز وینیو میں جاکر موثر احتجاج ریکارڈ کرانا چاہئے۔
شرما(male)”اولمپکس کا Dow سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ مقابلے تو پوری دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر Dow کمپنی اولمپکس کا غلط استعمال کرے گی تو دنیا بھر میں اس کے خلاف احتجاج ہوں گے۔ میرے خیال میں اولمپکس اسٹیڈیم کا استعمال کرنا بائیکاٹ کے مقابلے میں زیادہ بہتر خیال ہے، اس سے امریکی کمپنی پر دباﺅ ڈالا جاسکے گا، کیونکہ وہاں وہ اپنی مصنوعات کی تشہیر کرنے کے لئے موجود ہوگی”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply