Written by prs.adminMay 31, 2013
Hazara Music Silenced in Pakistan – پاکستان ہزارہ برادری
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
بلوچستان میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے گلوکار و موسیقار بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں، جس کے باعث انھوں نے دوبارہ کنسرٹ کرنے کی توقع ہی ختم کردی ہے۔ اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
ہزارہ کی گلیاں بالکل خاموش ہیں، دوپہر کا وقت ہوچکا ہے مگر گلیاں بالکل سنسان پڑی ہیں۔
ہم لوگ اس وقت کوئٹہ کے مضافات میں واقع ایک رہائشی علاقے میں موجود ہیں، یہاں بیشتر رہائشی ہزارہ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
ہم نے اس قصبے کے ایک معروف ہزارہ گلوکار کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، جس پر ایک جھری سے کسی نے ہمارا جائزہ لیا، چند منٹ بعد چودہ سالہ فریدوں یوسف آذاد نے دروازہ کھول دیا۔
فریدوں خوفزدہ نظر آرہا تھا اور اس نے فوری طور پر دروازہ بند کردیا۔
فریدوں حبیب یوسف زادہ کا بیٹا ہے، جو کوئٹہ کے مقبول ترین ہزارہ گلوکاروں میں سے ایک ہیں، مگر اب وہ کبھی کبھار ہی گاتے ہوئے نظر آتے ہیں، روزگار کیلئے انھوں نے ایک دکان چلانا شروع کردی ہے۔
حبیب یوسف زادہ”پاکستان میں ہر شخص میرے بیٹے، میرے خاندان اور خود میرے خلاف نظر آتا ہے، جسکی وجہ ہمارا ہزارہ برادری سے تعلق ہے۔ یہاں لوگ بغیر کسی وجہ سے ہزارہ افراد کو قتل کردیتے ہیں، ہم پر کئی بار حملہ ہوچکا ہے، جس کی وجہ ہمارا فن موسیقی سے تعلق ہے اور یہاں لوگ فن موسیقی کو پسند نہیں کرتے”۔
یہ خاندان 1990ءکی دہائی میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد فرار ہوکر یہاں آیا تھا، مگر پاکستان میں بھی انہیں مشکل حالات کا سامنا ہے۔ لشکر جھنگوی نامی عسکریت پسند گروپ ہزارہ برادری پر ہونے والے حملوں میں ملوث ہے۔فریدوں پر گزشتہ برس ایک میوزک ایونٹ میں شرکت کے بعد حملہ ہوا تھا۔
فریدوں”ایک شام دو نوجوانوں نے ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا، جب میں دروازہ کھول کر باہر گیا، تو انھوں نے پوچھا کہ کیا تم فریدوں ہو؟ میں نے کچھ نہیں کہا اور پھر وہ مجھے مارنے لگے۔ ایک نوجوان نے مجھے گولی ماردی، جس کے بعد میں خود کو بچانے کے لئے گھر کی طرف بھاگا، جبکہ وہ نوجوان اپنی موٹرسائیکل پر بیٹھ کر فرار ہوگئے۔ مجھے اب بھی اپنے جسم پر اس گولی کا درد محسوس ہوتا ہے”۔
بیشتر ہزارہ افراد آسٹریلیا میں سیاسی پناہ لینے کی کوشش کررہے ہیں، تاہم فریدوں اور ان کے والد اس کی سکت نہیں رکھتے۔
فریدوں”میرے والد ایک گلوکار ہیں اور میں بھی بچپن سے ہی اس کام کو پسند کرتا ہوں۔ مجھے موسیقی سے محبت ہے اور میں اسے سیکھنے کیلئے سخت محنت کررہا ہوں، میں ایک اچھا گلوکار بننا چاہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ایک دن یہ معاشرہ میری عزت کرے”۔
محمد ادریس ایک ہزارہ صحافی ہیں، انہیں خطرہ سمجھنے پر ایک نجی چینیل کی ملازمت سے نکال دیا گیا تھا، وہ ہزارہ گلوکاروں کے بارے میں اظہار خیال کررہے ہیں۔
محمد ادریس”ہم لوگ موسیقی پر پابندی نہیں لگاتے،پاکستان کے بیشتر معروف گلوکار و موسیقار ہزارہ برادری سے تعلق رکھتے ہیں، تاہم اب تک سینکڑوں ہزارہ افراد کو ہلاک یا زخمی کیا جاچکا ہے، یہی وجہ ہے کہ نوجوان میوزک کنسرٹ سے منہ موڑنے لگے ہیں۔ وہ بنیاد پرست بن رہے ہیں، اور موسیقی کے پروگراموں کی بجائے مذہبی اجلاسوں میں شرکت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یہ لوگ میوزک کنسرٹ کرانے والے افراد کو کافر قرار دے رہے ہیں”۔
طیبہ سحر ایک معروف شاعرہ ہیں، جو ہزارہ برادری کی کو درپیش مشکلات پر لکھ رہی ہیں۔انہیں فکر ہے کہ والدین اپنے بچوں خصوصاً لڑکیوں کو جانوں کو لاحق خطرات کے ڈر سے گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
طیبہ”میں نے اپنی نظموں میں لکھا ہے کہ حکومت اور عالمی برادری خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، وہ ہزارہ برادری کو درپیش حالات پر کچھ نہیں کررہے ہیں، وہ ہم پر بالکل توجہ نہیں دے رہے، میں نے اس خوفناک صورتحال کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے”۔
عدیلہ فضاءچوتھی جماعت کی طالبہ ہے، وہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے ایک اسکول میں زیرتعلیم ہے اور اس وقت وہ ایک نئی نظم پڑھ کر سنا رہی ہے۔
عدیلہ فضائ”میں اپنی تحریروں سے پوری دنیا کو ہزارہ افراد کو درپیش مشکلات اور دکھ سے واقف کرانا چاہتی ہوں، میں اپنے آواز اٹھانا چاہتی ہے، اگر مجھے کبھی بھی ہزارہ افراد کیلئے لڑنے کا موقع ملا، چاہے وہ مباحثے میں ہو، شاعری، موسیقی یا کچھ اور میں اپنی آواز اٹھاتی رہوں گی”۔
مگر متعدد افراد کو خدشہ ہے کہ انہیں ہزارہ گلوکاروں کو سننے کا موقع طویل عرصے تک نہیں مل سکے گا۔
فریدوں”میں چاہتا ہوں کہ میرے گانے سنتے ہوئے لوگ اپنی مشکلات کو بھول جائیں، میں ان دکھی لوگوں کیلئے گانا چاہتا ہوں، مگر کچھ حلقے اسے پسند نہیں کرتے اور وہ ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ کہ وہ مجھے مار دیں گے، مگر میں موسیقی سے بھی محبت کرتا ہوں، اور میں اپنی موت تک موسیقی کے ساتھ جینا چاہتا ہوں”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |