Written by prs.adminApril 27, 2012
Facebook Issue پا کستانی خوا تین میں فیس بک کا رجحا ن
Science . Women's world | خواتین کی دنیا Article
فیس بک اور دیگرسوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس فی زمانہ نوجوان نسل کی زندگی کا اہم حصہ ہی نہیں بلکہ اب اُنکی زندگی بن چکی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق500ملین لوگ روزانہ فیس بک استعمال کرتے ہیں۔ فیس بک ،ٹوئیٹر،لنکڈ اِن،آرکٹ اور دیگر سوشل ویب سائٹس کے جہاں بے شمار فوائد ہیں، وہیں اِسکے کچھ نقصانات بھی سامنے آئے ہیں۔ہر روزکروڑوں لوگ فیس بک استعمال کرتے ہوئے اپنی تصاویر،معلومات،فیچرز اور لنکس دوستوں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں جنکا جانے انجانے میں غلط استعمال بھی کیا جاتا ہے ، ایسے میںنوجوان لڑکیوں کو پرائیویسی سیٹ کئے بغیر فیس بک استعمال کرنے کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔نامور جرنلسٹ عافیہ سلام کا کہنا ہے کہ فیس بک کی بدولت دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود کسی بھی شخص سے رابطہ کرنا اب انتہائی آسان ہو چکا ہے اسکے علاوہ فیس بک کو بزنس اور ایڈورٹائزمنٹ ٹول کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے:
جبکہ دوسری جانب فیس بک استعمال کرتے ہوئے پرائیویسی آپشنز سیٹ کرنا انتہائی ضروری ہے یا پھر فوٹوز اور دیگر معلومات صرف اور صرف انتہائی قابل اعتماد افراد کے ساتھ ہی شیئر کی جائیں تو بہتر ہے۔اس حوالے سے فیس بک میں ایسے آپشنز موجود ہیں جنہیں منتخب کرتے ہوئے آپ سیکیورٹی سیٹنگز کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
دنیا بھر میں بے شمار لڑکیاں اس وقت فیک پروفائلز اور فوٹو ٹیمپرنگ کے باعث بلیک میلنگ،دھوکہ دہی اور دیگر سماجی مسائل کا سامنا کر رہی ہیں،اس حوالے سے پاکستان میں بھی کئی واقعات سامنے آئے ہیں جن میں نوجوان لڑکیوں کی تصاویر اور اُن سے منسلک دیگر معلومات کو مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افراد ، اداروں اور ویب سائٹس نے استعمال کیا جسکی وجہ سے لڑکیوں اور اُنکے والدین کو شدید ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ایف آئی اے کے ڈائریکٹر معظم جاہ نے ہمیں بتایا کہ سائبز کرائم کے حوالے سے موصول ہونے والی شکایات میںسے 70 فیصد کا تعلق فیس بک سے ہے ،جبکہ بلیک میلنگ کے لاتعداد واقعات منظر عام پر آتے ہی نہیں اور رسوائی اور بد نامی کے خوف سے خواتین خود کشی کرلیتی ہیں یا خودکو گھروں میں قید کر لیتی ہیں۔معظم جاہ کا کہنا ہے کہ کسی بھی قسم کے سماجی مسائل سے بچنے کیلئے نوجوان لڑکیوںکو فیس بک پر اپنی تصاویز اپ لوڈ کرنے اور انجان افراد کو فرینڈ لسٹ میں ایڈ کرنے سے حتی الامکان گریز کرنا چاہئیے۔
“بولو بھی “سے منسلک فریحہ اختر نے ہمیں بتایا کہ کس طرح نوجوان لڑکیوں کی تصاویر کو مختلف گرافک ٹولز کے ذریعے ایڈٹ کرنے کے بعد غیر اخلاقی ویب سائٹس پر استعمال کیا جاتا ہے:
صرف پاکستان میں فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ،جبکہ فیس بک پر بلیک میلنگ اور دھوکہ دہی سے متاثر ہونے والوں میں 99فیصد خواتین اور کم عمر لڑکیاں شامل ہیں۔ فیس بک میں وال پر شیئر کی جانے والی وڈیوز اور البمز کا بھی غیر مناسب استعمال کیا جاتا ہے ، خوبصورت اور دلکش خواتین کی پروفائل پکچرزاُنکی اجازت کے بغیر استعمال کرتے ہوئے انٹرنیٹ پر موجود سیکڑوں غیر اخلاقی ویب سائٹس پر کسی اور کی تصویر کے طور پر اَپ لوڈ کر دی جاتی ہیں:
ویب سائٹس کے علاوہ ذاتی دشمنی اور رقابت میں بھی خواتین کی تصاویر اور سیل نمبرز کا غیر اخلاقی استعمال کرتے ہوئے انھیں بلیک میل کیا جاتا ہے،بلیک میلنگ میں رقم سے لے کر عصمت فروشی اور دیگر غیر اخلاقی سرگرمیوں کے مطالبات سامنے آئے ہیں۔شہرت یافتہ شخصیات بھی سائبر کرائمز سے محفوظ نہیںرہیں، سلیبرٹیز کے جعلی پروفائل بنا کر اُنکے پرستاروں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے ، اس حوالے سے ملکی اور غیر ملکی سطح پر کئی واقعات سامنے آچکے ہیں، یہ فیک پروفائلز کیسے بنائے جاتے ہیں اس بارے میں فریحہ اختر بتاتی ہیں:
پاکستان میں سائبر کرائم کے حوالے سے تاحال کوئی قانون موجود نہیں ہے،دوسری جانب غیر اخلاقی تصاویر اور وڈیوز کا کاروبار پاکستان بھر میں عروج پر ہے اس غیر اخلاقی اور غیر قانونی کاروبار سے منسلک لوگ کافی حد تک فیس بک سے استفادہ کرتے ہیں۔پاکستان کی نامور جرنلسٹ عافیہ سلام کا کہنا ہے کہ دفتری اوقات کار میں ریسورسز کے غیر مفید استعمال کی ایک وجہ سوشل ویب سائٹس بھی ہیںجسکی وجہ سے اہم کاروباری اداروں میں فیس بک کو بلاک کر دیا جاتا ہے:
فیس بک سمیت تمام سوشل ویب سائٹس کے استعمال میں لڑکیوں کو بے حد محتاط رہنا چاہئیے،ہیکنگ سے بچنے کیلئے ناقابل رسائی پاس ورڈ کا انتخاب کریں اسکے علاوہانٹرنیٹ کیفے وغیرہ میں فیس بک استعمال کرنے کے بعد اپنا اکاﺅنٹ لاگ آﺅٹ کرنا ہر گز نہ بھولیں۔۔ایف آئی اے سائبر کرائم سیل کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ فیس بک پر بلیک میلنگ کا شکار ہونے والی خواتین کو فوری طور پرمتعلقہ اداروں سے رجوع کرنا چاہئیے کیونکہ تاخیر کی صورت میں مجرمان ثبوت ضائع کر دیتے ہیں۔نوجوانوں میں بڑھتی سماجی بے راہ روی کو روکنے کیلئے والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ اس بات سے آگاہ رہیں کہ اُنکے بچے کن سائٹس کو وزٹ کر رہے ہیں اور سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کا استعمال کس طرح کر رہے ہیں۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
Leave a Reply