Written by prs.adminJuly 24, 2012
(End of the Road for Pakistan’s Truck Artists)پاکستان میں دم توڑتا ٹرک آرٹ
Asia Calling | ایشیا کالنگ . Business Article
پاکستان میں چلنے والے ٹرکوں پر انتہائی خوبصورت نقش و نگار بنے ہوتے ہیں اور وہ سڑکوں پر چلتی پھرتی پینٹنگز لگتے ہیں۔ پاکستان میں ٹرک آرٹ کی یہ روایت 1920ءکی دہائی سے چلی آرہی ہے اور خیبرپختونخواہ کو اس فن کی پیدائش کا مرکز مانا جاتا ہے۔مگر اب یہ خوبصورت فن اپنی موت آپ مررہا ہے.
65 سالہ غلام محمد پشاور میں مقیم ایک بہترین ٹرک آرٹسٹ سمجھے جاتے ہیں، وہ اس وقت کام کی تلاش کررہے ہیں۔اور وقت پشاور کی رنگ روڈ کے ارگرد موٹرسائیکل چلاتے ہوئے ٹرک ڈھونڈ رہے ہیں، جسکی سجاوٹ کا کام ہونا ہو۔
غلام محمد(male) “میرے چار بیٹے ہیں، جبکہ بیٹی مرچکی ہے۔ میری بیوی کو ذیابیطس اور ہیپاٹائیٹس جیسے امراض کا سامنا ہے اور کم آمدنی کے باعث میں اسکا مناسب علاج بھی نہیں کراپاتا”۔
غلام محمد اس وقت سپر وزیرستان ٹرک کمپنی کے احاطے میں کھڑے ہیں، یہ کام کی تلاش میں مصروف ڈرائیورز اور میکنیکس میں مقبول جگہ ہے۔ غلام محمد گزشتہ چار روز سے کسی ٹرک کو سجانے کا کام ڈھونڈ رہے ہیں، مگر اب یہ کام ان کیلئے مشکل ہوتا جارہا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ اب زیادہ تر ٹریلرز باربرداری کا کام کرنے لگے ہیں، جن میں سامان کنٹینرز کے ذریعے جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس میں زیادہ سجاوٹ کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔دوسری طرف عام ٹرک اب پشاور میں بہت کم آتے ہیں، کیونکہ ڈرائیورز اور مالکان کو بم حملوں اور اغوا برائے تاوان کا خطرہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غلام محمد اپنے متعدد صارفین سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
غلام محمد(male) “میں تو اب اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مجھے خودکشی کرلینی چاہئے، میں بل، کرایہ اور دیگر اخراجات پورے نہیں کرپارہا، میرے پاس کام نہیں تو یہ خرچے کیسے پورے کروں۔ میرے بچوں کو پیسوں کی ضرورت ہے مگر میں انہیں دینے میں ناکام ہوچکا ہوں”۔
ایک ٹرک کی سجاوٹ میں دس سے پندرہ روز لگتے ہیں، جس پر دو ہزار سے تیس ہزار روپے تک کا خرچہ آتا ہے۔ 1980ءکی دہائی میں غلام محمد بہت زیادہ مصروف رہتے تھے اور ان کی روزانہ کی آمدنی ہی پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے کے درمیان تھی۔ ٹرک کے مالکان اپنی گاڑیوں کی سجاوٹ کیلئے غلام محمد کے فارغ ہونے کا انتظار ہفتوں ہنسی خوشی کرتے تھے۔ ہر ٹرک آرٹسٹ ایک خاص تصویر کا ماہر ہوتا ہے، غلام محمد کی یہ خاص تصویر وائٹ ہاﺅس ہے جس میں پر لگے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ قدرتی مناظر، پہاڑیاں، پھولوں کے ڈیزائن اور دیگر تصاویر وغیرہ بنانے میں بھی انہیں مہارت حاصل ہے۔غلام محمد کا کہنا ہے کہ وہ اب تک دو ہزار سے زائد ٹرکوں کو رنگ چکے ہیں، تاہم انتہاپسندی بڑھنے سے انہیں اپنے کام کی تیکنیک تبدیل کرنا پڑی ہے۔
غلام محمد(male) “مجھے انسانوں اور جانوروں کی تصاویر بناکر خوشی ہوتی تھی، مگر اب ایسا نہیں کیونکہ ایسا کرنا گناہ ہوتا ہے، اب میں خطاطی کرنا پسند کرتا ہوں، جبکہ مجھے پہاڑی مناظر، شاہراﺅں اور درختوں کی تصاویر بنا کر بھی مزہ آتا ہے۔ میرے جیسے فنکار انسانوں اور جانوروں کی تصاویر بناکر کافی رقم کمالیتے ہیں، مگر میں ان تصاویر کو بنانا اب گناہ سمجھتا ہوں”۔
موجودہ ٹیکنالوجی اور جدید رجحانات نے بھی اس کاروبار کو متاثر کیا ہے، ہزار گل بارہ ٹرکوں کے مالک ہیں، وہ 1980ءکی دہائی میں ٹرک آرٹ کے شیدائی تھے مگر اب نہیں۔
ہزار گل(male) “آخر میں اپنی رقم کیوں کسی ایسے گھوڑے کی تصویر پر خرچ کروں جسکے سر پر خاتون کا چہرہ لگا ہو اور اس کے پرنکلے ہوئے ہو؟ ہم نے تو حقیقی زندگی میں ایسی مخلوقات کبھی نہیں دیکھیں، جبکہ اب میرے موبائل فون میں میرے بچوں کی تصاویر موجود ہیں، اس لئے اب ٹرک پر انکی تصاویر بنوانا بھی بے کار ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے مجھے تو ٹرک آرٹ میں کسی قسم کی جدت دیکھنے میں نہیں آئی، ایک آرٹسٹ کو ٹرک سجانے کیلئے کئی ہفتے درکار ہوتے ہیں، کوئی ٹرک مالک ہفتوں تک اپنی آمدنی کے ذریعے کو محض سجاوٹ کیلئے روکنے کا بار نہیں اٹھاسکتا”۔
زیادہ تر ٹرک آرٹسٹوں نے اس فن کی باضابطہ تربیت حاصل نہیں کی، تاہم پشاور میں غلام محمد اب تک ڈیڑھ سو سے زائد افراد کو اس فن کی تعلیم دے چکے ہیں۔34 سالہ امیر رحمن بھی ایسے ہی سابقہ طالبعلم ہیں، انھوں نے اپنے کام کو آج کی جدت سے باہم ملا دیا ہے، تاہم ان کیلئے بھی کام کی تلاش آسان نہیں۔
امیر رحمن(male) “دہشتگردی کیخلاف جنگ اور خودکش حملوں نے ہمارے کام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ زیادہ تر افراد کی ٹرک آرٹ میں دلچسپی ختم ہوچکی ہے، ہمیں ہفتے میں دو سے تین روز تک کام نہیں ملتا، جبکہ ماضی میں تو ہمیں رات کو بھی فرصت نہیں ملتی تھی۔ ہم روزانہ پانچ سے دس ہزار روپے کمالیتے تھے مگر اب ہماری آمدنی پانچ سو روپے بھی نہیں رہی”۔
غلام محمد کا کہنا ہے کہ حکومت گلوکاروں اور مصوروں کو ایوارڈز دیتی ہے مگر وہ ٹرک آرٹسٹوں کونظرانداز کردیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اب اپنے بچوں کو اس شعبے میں نہ لانیکا فیصلہ کرچکے ہیں۔
غلام محمد(male) “میں اپنے بچوں کو کبھی اس پیشے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دوں گا، کیونکہ اب اس فن کا مستقبل تاریک ہے۔ ہمیں کم سے کم رقم پر کام کرنا پڑتا ہے، شدید گرمی ہو یا سردی ہمیں کھلے آسمان تلے کام کرنا پڑتا ہے، اگر حکومت نے اس فن کی سرپرستی نہ کی تو آئندہ دس سے گیارہ برسوں کے دوران یہ دم توڑ دے گا”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
Leave a Reply