Written by prs.adminNovember 11, 2013
Empowering Indonesia’s Child Domestic Labour – انڈونیشین گھریلو ملازم بچے
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
عالمی ادارہ محنت کا تخمینہ ہے کہ دنیا بھر میں ایک کروڑ سے زائد بچے گھریلو ملازمین کی حیثیت سے کام کررہے ہیں، جن میں سے ستر فیصدتعداد لڑکیوں کی ہے، انڈونیشیاءمیں ایک این جی او ایسے بچوں کی زندگی بہتر بنانے کیلئے کام کررہی ہے، اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
انسیا اس وقت صرف پندرہ سال کی تھی جب اس نے گھریلو ملازمہ کی حیثیت سے کام شروع کیا، اس وجہ سے اسے ساتویں کلاس سے ہی اپنا اسکول چھوڑنا پڑا۔
انسیا”میرے والد کو فالج ہوگیا ہے، انہیں جب ڈاکٹر ہمارے گھر آئی تو اس نے کہا کہ اسے اپنے گھر میں کام کیلئے کسی ملازمہ کی ضرورت ہے، اسی وجہ سے میں نے یہ کام کرنے کا فیصلہ کیا”۔
یہ اس کی پہلی ملازمت ہے اور وہ روزانہ سترہ گھنٹے تک کام کرتی ہے۔
انسیا”میں صبح پانچ بجے کام شروع کرتی ہوں، سب سے پہلے جوس بناتی ہوں، پھر ناشتہ اور اس کے بعد مالکہ کی ماں کی مالش کرتی ہوں، اس کے بعد صاف ستھرائی، کپڑے دھونا اور ان پر استری وغیرہ کا نمبر آتا ہے”۔
سوال”یہ سب کس وقت تک ختم ہوتے ہیں؟
انسیا”رات کو دس بجے، مگر کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ مجھے کچھ اور کام بھی دیدیا جاتا ہے”۔
وہ اس لیڈی ڈاکٹر کے گھر دو ہفتے کام کرسکی جس کے عوض اسے پچیس ڈالرز ملے، مگر مناسب تعلیم نہ ہونے باعث وہ گھریلو ملازمہ کا ہی کام کرسکتی تھی، اسی لئے اس نے اگلی ملازمت بھی یہی کی، جس کیلئے اسے روزانہ پندرہ گھنٹے کام کرنے عوض ماہانہ ساٹھ ڈالرز ملتے ہیں۔
انسیا”میں ایسے تخت پر سوتی ہوں جس پر بستر نہیں بچھا، یعنی لکڑی کے بیڈ پر جس پر متعدد کاٹھ کباڑ بھی پڑا ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے میں کسی گودام میں سو رہی ہوں، میرے پاس صرف ایک تکیہ ہے اور پتلا سا کمبل، مجھے کمبل کے بغیر ہی سونا پڑتا ہے اور سوتے ہوئے بھی میں نے دستانے اور جرابیں پہن رکھی ہوتی ہیں، اس وقت ایسا لگتا ہے جیسے میں موٹرسائیکل چلارہی ہوں”۔
انسیا نے وہ ملازمت بھی کچھ عرصے بعد چھوڑ دی اور اب وہ کئی گھروں میں کپڑے دھونے کا کام کررہی ہے، انسیاان ایک کروڑ بچوں میں سے ایک ہے جو دنیا بھر میں غلاموں کی طرح کام کررہے ہیں۔ صرف انڈونیشیاءکے مختلف شہروں میں بچوں کی بڑی تعداد گھریلو ملازمین کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ان میں سے ایک علاقہ مغربی جاوا کا کرانجی بھی ہے، جہاں صورتحال بدلنے کیلئے ایک این جی او ہر اتوار کو پندرہ گھریلو ملازمین بچوں کیلئے مفت کلاسز کا انعقاد کررہی ہے۔ انکے مارساس کلاس میں پڑھاتی ہیں۔
مارس”ہم 2011ءمیں کرانجی آئے، ہم چاہتے تھے کہ یہاں کے بچوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملے، نہ صرف تعلیم بلکہ انکا مستقبل بھی بہتر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہم یہاں تھیٹر کلاس کے ساتھ آئے، جہاں اچھا ماحول فراہم کیا جاتا ہے، ہم نے متیارا اسٹوڈیو بھی تشکیل دیا ہے”۔
ہر لینا سریفدین پیشہ ور تھیٹر لیکچرار ہیں۔
ہر لینا”میرا مقصد ان بچوں کو اتنا پراعتماد بنانا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے بھی پرفارمنس دکھاسکیں، اسی طرح وہ دنیا میں آگے بڑھ سکتے ہیں، مگر اعتماد سازی کا یہ عمل کافی مشکل ہے کیونکہ طویل عرصے سے انکا استحصال کیا جارہا ہے۔ ہم ان کی ہمت بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں، اور انہیں سمجھا رہے ہیں کہ ان کے سامنے ایک روشن مستقبل موجود ہے، جس کیلئے کافی محنت کرنا ہوگی، اب ہم ان بچوں میں کچھ بہتری دیکھ رہے ہیں”۔
سولہ سالہ سو چی رحماتی بھی اس کلاس میں پڑھ رہی ہے۔
سوچی”تھیٹر اداکاری جیسا ہی ہے، ہمیں یہاں کافی تجربات حاصل ہورہے ہیں، ہم تھیٹر میں اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں”۔
سوال”کیا اب آپ زیادہ پراعتماد ہوچکی ہیں؟
سوچی”شروع میں تو میں کافی ہچکچاہٹ محسوس کرتی تھی، پہلی بار ڈائیلاگ بولنے سے پہلے مجھے یہاں کے اساتذہ کافی سمجھانا پڑا، مگر اب میں کافی پراعتماد ہوچکی ہوں”۔
اس تھیٹر کے ذریعے انکے مارس چاہتی ہیں کہ یہ ملازم بچے یہ جانے کہ ان کیلئے ایک اور دنیا کے دروازے بھی کھل سکتے ہیں۔
مارس”میں نہیں چاہتی کہ یہ بچے مزید گھریلو ملازمین کی حیثیت سے کام کریں، یہ ان بچوں کیلئے دنیا کی بدترین ملازمت ہے، اس عمر میں تو انہیں کام کرنے کی بجائے اسکول جانا چاہئے، جب ہم پوچھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے خاندان کی کفالت کیلئے کام کرتے ہیں، وہ اپنے اسکول جانے والے دوستوں سے حسد کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے اندر خوداعتمادی کا فقدان ہے”۔
سوچی نے جون میں پہلی بار جکارتہ میں تھیٹر ڈرامے میں کام کیا، اسٹیج پر اس نے گھریلو ملازمہ کا کردار ادا کیا۔
ڈرامے کے بعد انیسیا نے کہا کہ وہ کوئی اور کام کرنا چاہتی ہے۔
انیسیا”میں بہتر ملازمت چاہتی ہوں، کسی دفتروغیرہ میں، میں اپنے خاندان کا بہتر طریقے سے خیال رکھنا چاہتی ہوں اور میں مالی طور پر خودمختار بننا چاہتی ہوں”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |