Written by prs.adminMarch 27, 2013
Domestic Violence Law Needed in China – چین میں گھریلو تشدد
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
چین میں ہر چار میں سے ایک خاتون اپنے شریک حیات کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں، تاہم اس گھریلو تشدد پر قابو پانے کیلئے کوئی خاص قانون موجود نہیں۔
گھریلو تشدد کی متعدد متاثرہ خواتین کی طرح کم لی بھی اپنے شوہر کی مارپیٹ کو کئی برسوں تک چھپاتی رہیں۔
کم لی” مجھے اس بارے میں بات کرنا پسند نہیں تھا، ایک بار میری نند نے میرے ہاتھ چند خراشوں کو دیکھا، میں نے بتایا کہ یہ اس کے بھائی کے تشدد کا نتیجہ ہے، تاہم اس نے یہ ان سنی کرتے ہوئے کہا کہ تمام مرد ایسے ہی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد میں نے اس بارے نئ بات کرنا ہی چھوڑ دیا، تاہم گزشتہ سال اگست میں حالات تبدیل ہوگئے”۔
کم لی ایک امریکی شہری ہیں، جن کی چین کی مشہور شخصیت لی یانگ سے شادی ہوئی تھی، لی یا نگ ایک کروڑ شخص ہیں، کم لی نے 2011ءمیں اپنی ایک تصویر چینی سوشل میڈیا میں شائع کی جس میں انھوں نے اپنی شادی کی حقیقی کہانی پر روشنی ڈالی۔ان کے گھٹنوں پر خراشیں تھی، جبکہ سر سوجا ہوا تھا اور مارپیٹ کی وجہ سے کان نیلے پڑے ہوئے تھے۔
کم لی”میں نے بہت گہرائی میں جاکر سوچا تھا کہ اگر خواتین ان حالات سے نبھا کرلیتی ہیں اور اس بارے میں کچھ نہیں کہتیں۔ میرے خیال میں یہ حقیقیت ہے اور یہ صرف چین کی ہی بات نہیں بلکہ پوری دنیا میں خواتین کے ساتھ ایسا ہوتا ہے”۔
یہ پہلی بار ہے کہ چین میں اتنی اعلیٰ شخصیت کی بیوی نے اس طرح تشدد کا اعلان کیا، ان کے شوہر نے تشدد کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ پولیس سے رجوع کرے گی کیونکہ چینی خواتین ایسا نہیں کرتیں۔ان دونوں کے درمیان اٹھارہ ماہ کی قانونی جنگ کو چینی عوام نے بہت دلچسپی سے دیکھا اور عدالت نے رواں برس فروری میں کم لی کو طلاق کا حق اور تین بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری سونپ دی۔کم لی کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد کے حوالے سے قوانین نہ ہونے کے باعث خواتین کو اپنے مقدمات کی پیروی میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کم لی”انتظامیہ کو خواتین کی پروا ہی نہیں ہوتی اور نہ ہی انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے معاملات میں کیا کرنا چاہئے جس کی وجہ سے وہ اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑاتے ہوئے ان معاملات کو نظرانداز کردیتے ہیں”۔
چین میں حقوق نسواں کے لئے کام کرنے والے ادارون نے گھریلو تشدد کی وضاحت اور سزاﺅں کے حوالے سے ایک قانون کا مسودہ تیار کیا ہے اور وہ حکومت سے اس کی منظوری کا مطالبہ کررہے ہیں۔
لیو شاوقاون بیجنگ میں خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے وکیل ہیں، انکا کہنا ہے کہ کئی صوبوں میں گھریلو تشدد کے
حوالے سے مقامی سطح پر قانون سازی ہوچکی ہے۔انہیں امید ہے کہ بہت جلد ایک قومی قانون بھی منظور کرلیا جائے گا۔
لیو شاوقاون “چین میں گھریلو تشدد کے حوالے سے قانون کی منزل بہت قریب ہے کیونکہ لوگ اب ایسا چاہتے ہیں، اس حوالے سے تمام شرائط پوری کردی گئی ہیں اور اب یہ لازمی ضرورت بن گیا ہے۔ اس حوالے سے قانونی کام بھی مکمل کرلیا گیا ہے”۔
فو ریسٹی یورنیورسٹی ،فانگ گانگ کے پروفیسر ہیں۔
فانگ”لوگ اب بھی گھریلو تشدد کو بہت زیادہ محسوس نہیں کرتے اور نہ ہی وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ہماری ثقافت کس حد تک متاثر ہوتی ہے۔ یہ قانون بہت اہم ہپے مگر میرے خیال میں اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ لوگوں کی ذہنیت کو تبدیل کیا جائے”۔
اس ذہنی تبدیلی کیلئے فانگ کافی کام کررہے ہیں، خصوصاً گھریلو تشدد سے متاثر ہونے والے مردوں کیلئے انھوں نے 2012ءمیں ایک ہاٹ لائن قائم کی تھی۔ ان کو سب سے پہلی کال ایک سرکاری عہدیدار نے کی، جس نے اعتراف کیا کہ اس کی بیوی اسے مارتی ہے۔
فانگ”وہ شخص ترقی کرنے کا خواہشمند تھا، اس پر معاشرے کی توقعات کا بہت زیادہ بوجھ تھا، وہ کامیاب ہوکر زیادہ سے زیادہ پیسے کمانا چاہتا تھا۔ہم نے اس کے مسئلے کو سمجھ کر اس کی مدد کی”۔
کم لی کا کہنا ہے کہ اب وہ دیگر خواتین کی مدد کرنا چاہتی ہیں اور انہیں توقع ہے کہ ان کے مقدمے سے دیگر متاثرین کو حوصلہ ملے گا۔جیسے لی یان جسے اپنے شوہر کو قتل کرنے پر سزائے موت کا سامنا ہے۔ لی یان برسوں تک گھریلو تشدد کا شکار رہی، وہ پولیس کے پاس بھی گئی مگر کچھ نہیں ہوسکا۔کم لی بتارہی ہیں کہ انہیں بہت سی خواتین کی جانب سے حمایت کے پیغامات مل رہے ہیں۔
کم لی”یہ اب میری ذاتی کہانی نہیں رہی، میرا مسئلہ تو حل ہوچکا ہے، اب یہ معاملہ تمام خواتین کا ہے جو میری طرح آگے آنے کا حوصلہ نہیں رکھتیں۔ جس رات مجھے طلاق ہوئی اس دن مجھے ایک مرد نے اپنی حمایت کا پیغام بھیجا، اس کا مطلب تھا کہ اس رات کم از کم ایسا مرد تو کم ہوگیا جو اپنی بیوی پر تشدد کرتا ہے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |