Written by prs.adminJune 26, 2012
(Dog versus Humans in Indian Kashmir) کشمیر میں کتے اور انسانوں کا مقابلہ
Asia Calling | ایشیا کالنگ . Health Article
مقبوضہ جموں و کشمیر کے شہر سرینگر کے رہائشی آج کل آوارہ کتوں کے باعث پریشان ہیں۔ ان کتوں کی جانب سے روزانہ درجنوں حملوں کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔اس سے نمٹنے کیلئے کوششیں کی جارہی ہیں تاہم صورتحال بہتر نہیں ہوپارہی۔
سرینگر کے ریاستی ہسپتال میں طبی عملہ درجنوں کی تعداد میں موجود مردوں، خواتین اور بچوں کو anti-rabies ویکسین دینے میں مصروف ہے۔ بیشتر افراد کے جسموں پر کتے کے کاٹنے سے آنے والے زخموں سے خون بہہ رہا ہے، نوجوان لڑکی شازیہ بٹ بھی یہاں اپنے ایک سالہ کزن عاقب کے ساتھ موجود ہے۔ شازیہ کے پورے جسم پر کھرونچے ہیں، جبکہ عاقب کے چہرے پر گہری خراش ہے۔
شازیہ(female) “میں اپنے کزن کے ساتھ ایک سڑک پر چل رہی تھی، کہ تین کتوں نے اچانک انتہائی وحشیانہ انداز میں ہم پر حملہ کردیا۔ انھوں نے مجھے کاٹا اور میں نیچے گرگئی، جسکے بعد انھوں نے مجھے اور میرے کزن کو اس وقت تک کاٹا، جب تک کچھ لوگ ہماری مدد کیلئے نہیں آگئے”۔
کشمیر بھر میں آوارہ کتے گاڑیوں کا پیچھا کرتے نظر آتے ہیں، وہ سائیکلوں پر جانے والے افراد کو گرا دیتے ہیں، جبکہ راہ گیروں خصوصاً اسکول جانے والے بچوں پر حملے تو عام ہیں۔ ڈاکٹر صفورہ بلقیس سرکاری ہسپتال کے Department of Community Medicine کی سربراہ ہیں۔انکا کہنا ہے کہ کتوں کے کاٹنے سے آنے والے زخم انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔
صفورہ بلقیس(female) “پوری وادی سے مریض ہمارے پاس آتے ہیں، روزانہ ان کی تعداد 65، اسی یا کئی بار تو نوے تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ ہم ان کی زندگیاں بچانے کیلئے ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ہم ان افراد کو مفت ویکسین فراہم کرتے ہیں، مگر rabies انتہائی جان لیوا مرض ہوتا ہے، میں نے اپنی زندگی میں کتوں کو اس طرح بڑے پیمانے پر تباہی پھیلاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا”۔
گزشتہ چند برسوں سے کتوں کے حملوں کے واقعات میں اضافہ تو ہوا تھا مگر رواں سال اس میں بہت زیادہ شدت آگئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ چار سال کے دوران کتوں نے پچاس ہزار سے زائد افراد کو کاٹا، جن میں سے کم از کم پندرہ rabiesکے باعث ہلاک ہوگئے۔ یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی، جب جانوروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے اداروں نے انتظامیہ کو آوارہ کتوں کو مارنے کا پروگرام روکنے پر مجبور کردیا، جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ کتوں کی آبادی بہت زیادہ ہوگئی۔ Gulam Nabi Kasba سرینگر کے بلدیاتی ادارے کے کمشنر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کتوں کی بہت زیادہ انتہائی خوفناک منظر پیش کرتی ہے۔
غلام نبی(male) “ہم نے حال ہی میں کتوں کی تعداد کیلئے سروے کیا، جس سے معلوم ہوا کہ صرف سرینگر میں ہی کتوں کی تعداد 91 ہزار سے زائد ہے۔اگر ہم اس تعداد کا موازنہ انسانی آبادی سے کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت ہر بارہ افراد کے مقابلے میں ایک کتا اس شہر میں موجود ہے”۔
تاہم غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق سرینگر میں کتوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے۔ مقامی شہریوں کی جانب سے کتوں کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کیا جارہا ہے، تاہم اس راہ میں اب جانوروں کے تحفظ کیلئے نافذ ہونیوالے قوانین رکاوٹ بن گئے ہیں۔ایک مقامی وکیل نے کشمیر ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرکے آوارہ کتوں کے خاتمے کی استدعا کی۔ عدالت نے حکومت کو شہر کے نواح میں کتوں کیلئے قید خانے بنانے کا حکم دیتے ہوئے انہیں وہاں منتقل کرنے کا کہا، تاہم مقامی رہائشیوں نے اس فیصلے کو مسترد کردیا ، جسکے بعد شہر بھر میں عوامی احتجاج شروع ہوگیا۔گزشتہ ماہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ کتوں کی نس بندی کرکے انکی آبادی پر قابو پایا جائے، ڈاکٹر دل محمد مخدومی اس پروگرام کے سربراہ ہیں۔
مخدومی(male) “ہم کتوں کی آبادی کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں کرسکتے، تاہم انکی تعداد پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کیلئے واحد طریقہ نس بندی ہی ہے۔ ہم نے ہر چیز تیار کرلی ہے اور ضرورت کے مطابق انفراسٹرکچر بھی تیار کرلیا گیا ہے۔ ہمارا منصوبہ ہے کہ روزانہ کم از کم سو کتوں کی نس بندی کریں گے”۔
مگر متعدد حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ اس مسئلے کا حل نہیں۔ تنویر احمد شاہ جانوروں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر ہیں۔
تنویر احمد شاہ(male) “کتے کثیر النسل جانوروں میں سے ایک ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ان کے ہاں شرح پیدائش بہت زیادہ ہے اور انکی آبادی غیرمعمولی شرح سے بڑھتی ہے۔ ہم روزانہ چالیس یا پچاس کتوں کی نس بندی کرسکتے ہیں، مگر ان کی آبادی بڑھنے کی شرح اس سے کہیں زیادہ تیز ہے، اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہماری مہم چالیس کتوں تک محدود ہوگی، جبکہ ان کی تعداد میں روزانہ چار سو کا اضافہ ہوگا۔ تو میرے خیال میں یہ اس مسئلے سے نمٹنے کا کوئی موثر طریقہ نہیں”۔
تنویر شاہ اور دیگر ماہرین کا ماننا ہے کہ کتوں کی بڑی تعداد کو مارنے سے ہی صورتحال کو قابو میں لایا جاسکتا ہے۔سماجی کارکن اسے انسانی حقوق کا مسئلہ قرار دے رہے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو جانوروں کے حقوق پر ترجیح دینی چاہئے۔ جاوید احمد جموں و کشمیر سول سوسائٹی کولیشن کے رکن ہیں۔
جاوید احمد(male) “ایسی ریاست جہاں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران لاکھوں افراد اس لئے ہلاک ہوگئے، کہ یہاں سیکیورٹی فورسز کو کسی بھی شخص کو مارنے کی مکمل آزادی ہے۔ یہاں نوجوانوں پر فورسز کو گولیوں کی بارش کرنے کا حق حاصل ہے، اس کو دیکھتے ہوئے جانوروں کے حقوق کے قوانین انتہائی ظالمانہ مذاق لگتے ہیں۔ آپ خطرناک جانوروں کو ما ر نہیں سکتے، مگر معصوم بچوں کے مرنے پر کسی کو دکھ نہیں ہوتا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں انسانی زندگی کتنی سستی ہے”۔
دوسری جانب جانوروں کے حقوق کیلئے کام کرنیوالے کارکن الزام لگارہے ہیں کہ حکام خفیہ طورپر کتوں کو مار رہے ہیں۔ Karin Jodha Fisher ایک این جی او Ethical Treatment of Animals کی رکن ہیں۔
فشر(female) “زہریلے گوشت کے باعث یہ کتے انتہائی تکلیف دہ انداز میں مرتے ہیں، یہ انتہائی غیرانسانی طریقہ ہے”۔
متاثرہ افراد اور ان کے خاندان حکومت پر موثر اقدامات کیلئے زور دے رہے ہیں۔ Raid Ahmad حال ہی میں کتوں کے ایک حملے سے بچے ہیں۔
(male) Raid Ahmad “ہر شخص خوفزدہ ہے، یہاں کوئی محفوظ نہیں۔ ہم اب نماز کیلئے مساجد بھی نہیں جاسکتے، کیونکہ کسی کو نہیں معلوم کہ کتے کب حملہ کردیں۔ یہ ایک کھلا خطرہ ہے مگر حکومت کچھ بھی نہیں کرنا چاہتی”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply