Written by prs.adminSeptember 4, 2013
Dead Fish Wash Ashore in Pakistan – پاکستانی ماہی گیری صنعت
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
پاکستان چھ سال بعد یورپی یونین کو سی فوڈ کی برآمد دوبارہ شروع کررہا ہے، اس سے قبل صحت کے ناقص معیار پر یورپی یونین نے پاکستانی مصنوعات پر پابندی عائد کردی تھی، مگر اب ماہی گیری کیلئے حالات تبدیل ہوگئے ہیں۔ اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
کراچی فش ہاربر کے قریبی علاقے ابراہیم حیدری میں بارہ سالہ علی محمد علی الصبح قریبی تیمر جنگلات میں جانے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔
علی محمد”ہم چھوٹے سوراخوں میں چھپے کیکڑوں کا شکار آئرن راڈ کی مدد سے کرتے ہیں، ہم انہیں مختلف قیمتوں میں فروخت کرتے ہیں، کچھ دس روپے میں بک جاتے ہین، جبکہ کچھ کے بدلے ہمیں پچیس سے تیس روپے بھی مل جاتے ہیں، اب تک سب سے مہنگا دو ہزار کا فروخت ہوا ہے”۔
اس علاقے کے ماہی مچھلیوں کی کثرت کے باعث عام طور پر کیکڑوں کا شکار نہیں کرتے تھے مگر پانچ برس قبلحالات تبدیل ہوگئے اور اس علاقے میں صنعتوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔
اگست کے آغاز میں کراچی ساحلی علاقہ اچانک مردہ مچھلیوں سے بھرگیا، ٹنوں کی تعداد میں موجود ان مچھلیوں کی صفائی کافی مشکل سے ہوئی، پچیس سالہ ماہی گیر نذیر احمد بھی صفائی کرنے والی ٹیم میں شامل تھے۔
نذیر”لوگوں نے ساحلوں سے مچھلیاں جمع کی تاہم انہیں فروخت نہیں کیا، تمام مردہ مچھلیوں کو کچرے میں پھینک دیا گیا، یہ بہت افسوسناک لمحہ تھا کیونکہ یہ ہمارے روزگار کا ذریعہ ہے”۔
اس واقعے کی وجہ پندرہ ہزار صنعتیں اور کراچی شہر کے دو کروڑ کے قریب رہائشی بنے، مقامی انتطامیہ کے مطابق شہر میں بارہ ہزار ٹن گھریلو و صنعتی فضلہ روزانہ پیدا ہوتا ہے،محمد معظم خان بحری حیات کے ماہر ہیں۔
خان”یہاں تین بڑے صنعتی علاقے ہیں، جبکہ رہائشی اور دیگر علاقوں میں بھی صنعتیں بڑی تعداد میں موجود ہیں،ان میں سے نوے فیصد صنعتیں میں کوئی ٹریٹمنٹ پلانٹ نہیں، جو کہ سمندری آلودگی کی بڑی وجہ ہے، میرا مطلب ہے کہ نوے فیصد سمندری حیات کراچی بندرگاہ اور دیگر کریکوں سے ختم ہوچکی ہے”۔
انیس سو ستانوے میں پاکستان نے ماحولیاتی تحفط کیلئے ایک نیا قانون متعارف کرایا تھا جس کے تحت ہر صنعت کو اپنا فضلہ ٹھکانے والا پلانٹ لگانے کا پابندی بنایا گیا تھا، مگر اب تک صرف ایک ہی پلانٹ نصب کیا جاسکا ہے۔
خان”کچھ کارخانے تیل، گریس، پکانے کا تیل، کیمیکل، بھاری معدنیات اور کیڑے مار ادویات خارج کرتے ہیں، یہ فہرست بنانا تو مشکل ہے کہ کون سی صنعت کتنی آلودگی خارج کرتی ہے،مگر یہ کافی سنگین مسئلہ ہے، ان میں سے بیشتر آلودگی جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے”۔
چھ برس قتل یورپی یونین نے فش ہاربر پر صفائی کی ناقص صورتحال پر پاکستان سے مچھلی درآمد کرنے پر پابندی عائد کردی تھی، جس کے باعث پاکستان کو سالانہ تین سو ملین ڈالر کا نقصان ہورہا ہے، جبکہ ہزاروں ماہی گیروں کا روزگار متاثر ہوا۔ طالب کچھی پاکستان فشرفوک فورم کے جنرل سیکرٹری ہیں۔
کچھی”ماہی گیر سالانہ حکومت کو زرمبادلہ کی مد میں دس لاکھ ڈالر سے زائد آمدنی دیتے ہیں، مگر حکومت ہمیں اس کے بدلے کسی قسم کی سہولیات نہیں دیتی، یہاں بچوں کیلئے کوئی جدید ہسپتال یا اسکول نہیں، رہائشی بستیاں بنیادی سہولیات جیسے پینے کے صاف پانی، مناسب نکاسی آب کے نظام وغیرہ سے محروم ہیں۔ بڑھتی ہوئی آلودگی ہمارے ساتھ ساتھ معیشت کی بھی قاتل ثابت ہورہی ہے”۔
سپریم کورٹ نے حکومت کو سمندری آلودگی کی شرح کم کرنے کیلئے اقدامات کا حکم دیا، تاہم سندھ انوائرمینٹپروٹیکشن ایجینسی کے عہدیدار محمد یحییٰ کا کہنا ہے کہ یہ کام ہم تنہا نہیں کرسکتے۔
محمد یحییٰ”یہ کسی ایک ادارے کی ذمہ داری نہیں، ہم سب کو ملکر ایسے اقدامات کرنا ہوں گے اور عدالتی حکم کی تعمیل کرنا ہوگی۔ تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو اس عمل میں شامل کرنا ہوگا اور جلد از جلد بہتر اقدامات کرنا ہوں گے، یہ قوم کے مفاد میں ہے”۔
ماہرین جیسے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے رب نواز کے مطابق آلودگی سے نمتنے کیلئے حقیقی اقدامات کئے بغیر پاکستنای مصنوعات کی برآمد پر دوبارہ پابندی کا خطرہ موجود ہے۔
رب نواز”یہ پہلا واقعہ نہیں، ماضی میں بھی ایسا ہوچکا ہے، مگر اب گزشتہ برسوں کے دوران پکڑی جانے والی مچھلیوں کا معائنہ کریں تو وہ آلودہ ثابت ہوگی، اور ان کو دیکھ کر یورپی یونین دوبارہ پابندی عائد کرسکتی ہے”۔
سمندر میں واپس آتے ہیں علی محمد ابھی گھر واپس آئے ہیں، ماضی میں اس کے والد روزانہ سو ڈالر کمالیتے تھے، مگر اب کیکڑوں کا شکار کرکے پانچ دن میں بھی اتنی رقم نہیں کما پاتا۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |