Written by prs.adminMay 23, 2013
Solution to Baby Dumping in Malaysia – ملائیشین بچے
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
ملائیشیاءمیں بچوں کو کھڑکیوں سے زندہ نیچے اچھالنے یا کھیتوں میں چھوڑنے کے واقعات کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، حکومتی اعدادوشمار کے مطابق 2005ءسے اب تک اس طرح کے پانچ سو سے زائد واقعات سامنے آچکے ہیں۔ اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
این نامی یہ خاتون ایک شیلٹر میں اپنے نومولود بچے کے ساتھ مقیم ہیں، یہاں ان کی طرح بیس دیگر غیرشادی شدہ مگر حاملہ خواتین بھی رہائش پذیر ہیں۔
این”مجھے ڈر ہے کہ میں اگر میں اپنے شہر پیراک میں گئی تو اپنے خاندان کے لئے شرمندگی کا باعث بنوں گی، یہ گھر ہماری پناہ گا ہے، یہ ہماری بدنامی کو چھپاکر ہمیں تبدیل ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے”۔
این اس وقت بیس برس کی تھیں تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہیں۔
این”میرے اس بچے کا باپ میرا سوتیلا باپ ہے جس نے نوعمری میں میرے ساتھ زیادتی کی”۔
سوال”کیا اس شخص کو آپ کے حاملہ ہونے کا علم ہوا؟
این ” وہ تو یہ سن کر سکتے میں آگیا اور اس نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ وہ اس کا ذمہ دار ہو مگر وہ اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں”۔
تاہم این جیسی مشکل میں پھنسی بیشتر خواتین اپنے ان بچوں کو کوڑے دانوں، جھاڑیوں، سیوریج سسٹم اور بیت الخلاءوغیرہ میں پھین دیتی ہیں، اس شیلٹر کو چلانے والے ادارے اورفین کیئر ایسی خواتین کو متبادل راستہ فراہم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ مئی 2010ءمیں ملائیشیاءمیں پہلی بار ایسے مرکز نے کام شروع کیا جہاں خواتین اپنا نام پوشیدہ رکھ کر ان بچوں کو سپرد کرسکتی ہیں۔ پوآن نورینی ہاشمی اس ادارے کی نائب صدر ہیں۔
ہاشمی”یہاں ایسی نوے فیصد خواتین مسلم ہیں، اور ہمارے مذہب کے تحت شادی سے قبل جسمانی تعلق ممنوع ہے اسی لئے وہ یہاں پناہ لینے آتی ہیں، وہ اپنے والدین اور محبوب وغیرہ کو بھی اس بارے میں نہیں بتاتیں اور کئی بار وہ یہاں سے چلی بھی جاتی ہیں”۔
جب بچہ یہاں پہنچ جاتا ہے تو انتظامی عہدیدار کے کمرے میں ایک الارم بجنے لگتا ہے، اب تک یہاں 71 بچے جمع کرائے جاچکے ہیں، جنھیں گود لینے کے لئے ہزاروں افراد نے درخواستیں دے رکھی ہیں۔
پوآن”ہم یہاں ان بچوں کو درپیش مسائل کا حل نکالنے کا کام کررہے ہیں، کوئی مانے یا نہ مانے مگر اب بھی ہمیں ایسے بچے مل رہے ہیں، تو ہمارا کام اس مسئلے کا حل ہے”۔
ملائیشیاءمیں غیر شادی شدہ ماﺅں کے پاس زیادہ راستے نہیں ہوتے۔
این”مجھے نہیں معلوم کہ میں کب یہاں سے نکل سکوں گی، میں نے تو اب تک اس بارے میں سوچا بھی نہیں”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |