Written by prs.adminJune 22, 2012
(Cambodian children cry to free their mothers from jail) کمبوڈین بچوں کی اپنی ماﺅں کی رہائی کیلئے گریہ و زاری
Asia Calling | ایشیا کالنگ . Social Issues Article
ماضی میں سیاحوں کیلئے باعث کشش Boeung Kak جھیل اب زمینی تنازعے کے باعث میدان جنگ بن چکی ہے۔ پانچ برس قبل انتظامیہ نے یہاں رہنے والے افراد کو زبردستی گھروں سے نکالنا شروع کیا تھا جس کے بعد سے یہاں احتجاج جاری ہے۔ گزشتہ ماہ بھی احتجاج کے دوران پندرہ خواتین کو گرفتار کرلیا گیا جن کے بچے اب اکیلے انتہائی مشکل حالات کا سامنا کررہے ہیں۔
Boeung Kak جھیل کے علاقے میں رہنے والے بچے دارالحکومت Phnom Penh کے شاہی محل کے سامنے گیت گارہے ہیں، ان بچوں میں سے بیشتر کی عمر بارہ سال سے کم ہے، اور وہ کمبوڈین بادشاہ سے اپنے والدین کی رہائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ان بچوں کے والدین جھیل کے ارگرد رہائشی حقوق کے مطالبے پر احتجاج کرتے ہوئے گرفتار کرلئے گئے تھے۔گرفتار ہونے والی تیرہ ماﺅں کو ڈھائی سال قید کی سزا بھی سنا دی گئی ہے، جبکہ دیگر دو خواتین عدالتی فیصلے کی منتظر ہیں۔
یہ بچے وزارت انصاف کے دفتر کے باہر بھی اپنے گرفتار والدین کی تصاویر اٹھائے جمع ہوئے۔ 11 سالہ Sokhunkanha رو رہی تھی، وہ اپنی ماں کی رہائی کا مطالبہ کررہی ہے۔
(female) Sokhunkanha “میری ماں اس وقت جیل میں قید ہیں، یہ ناانصافی ہے، میری ماں نے کسی زمین پر قبضہ نہیں کیا بلکہ وہ تو اپنے گھر کے تحفظ کی کوشش کررہی تھیں۔ میں وزیراعظم سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ میری ماں اور دیگر رہائشیوں کی مدد کریں۔ میں اپنی ماں کو بہت یاد کرتی ہوں اور چاہتی ہوں کہ ان کے ساتھ ساتھ میرے دیگر دوستوں کی مائیں بھی گھر واپس آجائیں”۔
جھیل کے گرد یہ احتجاج کئی برسوں سے جاری ہے۔ پانچ برس قبل کمبوڈین حکومت نے Boeung Kak کے ارگرد کی زمین بڑی کمپنیوں کو دینے کا فیصلہ کیا، Shukaku Incorporated نامی کمپنی کو بیشتر زمین 99 سالہ لیز پر دیدی گئی ، یہ کمپنی حکمران جماعت کمبوڈین پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک سینیٹر کی ملکیت ہے۔ اس کے بعد جھیل کے ارگرد رہنے والے ہزاروں افراد کو زبردستی بے گھر کردیا گیا تاکہ یہاں بلند و بالا عمارات تعمیر کی جاسکیں۔ کمپنی کی جانب سے چند متاثرہ افراد کو معاوضہ اور متبادل زمین بھی فراہم کی گئی، مگر یہ زمین دارالحکومت کے نواح میں واقع ہے جہاں پانی، بجلی اور ٹرانسپورٹ جیسی سہولیات موجود نہیں،جبکہ یہاں سے دفاتر اور تعلیمی ادارے بھی بہت دور ہیں۔ بیشتر خاندانوں نے مجبوراً اس پیشکش کو تسلیم کرلیا مگر چند افراد نے اپنے حقوق کیلئے جدوجہد جاری رکھی۔ گزشتہ سال وزیراعظم Hun Sen نے جھیل کی زمین کا دس فیصد حصہ رہائشیوں کو واپس دینے کا وعدہ کیا، مگر اب تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔گزشتہ ماہ چند افراد نے متنازعہ علاقے میں پرامن احتجاج کیا اور اپنے گھر دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کی۔
Sokhunkanha اس وقت جھیل کے قریب واقع ایک گاﺅں میں اپنے تین چھوٹے بھائیوں کے ساتھ مقیم ہے، جبکہ اس کے والد ملازمت کے باعث یہاں موجود نہیں۔ وہ ایک سرکاری ملازم ہیں اور اپنی بیوی کی طرح احتجاج نہیں کرسکتے۔
(female) Sokhunkanha “ماں کے بغیر ہماری زندگی بہت مشکل ہوگئی ہے، ہمارا خیال رکھنے والا کوئی بھی نہیں۔میرا چھوٹا بھائی بیمار ہے، جبکہ ہم اپنی تعلیم بھی جاری نہیں رکھ سکتے۔جب میرے اساتذہ میری والدہ کے بارے میں پوچھتے ہیں تو میرے لئے جواب دینا مشکل ہوجاتا ہے۔ میں اپنے بھائیوں کو گھر میں تنہا نہیں چھوڑ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اب میں پڑھ بھی نہیں رہی۔ میں اپنی ماں کو بہت یاد کرتی ہوں”۔
ایک اور تیرہ سالہ بچی Seang Srey Leak کی والدہ بھی جیل میں ہیں۔
(female) Seang Srey Leak “مجھے ماں بہت یاد آتی ہے، اسکول جانے کیلئے تیار ہونے میں وہ میری مدد کرتی تھیں۔ مگر اب میں اپنی ماں کے بغیر تنہا رہ رہی ہوں۔ جب میں اسکول میں ہوتی ہوں تو میرا دھیان پڑھائی پر نہیں ہوتا۔ مجھے اپنی ماں کی ضرورت ہے”۔
انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے بین الاقوامی اداروں نے ان تمام خواتین کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ کمبوڈین این جی او LICAHDO نے بھی اس حوالے سے مہم شروع کی ہوئی ہے۔Om Som Art LICAHDO کے عہدیدار ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ حکومت کو تمام خواتین کو فوری طور پر رہا کرنا چاہئے۔
Boeung Kak” (male) Om Som Art کی پندرہ خواتین کی گرفتاری کو کسی صورت جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ وزارت انصاف کو اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے اس کا حل نکالنا چاہئے۔ بچوں کیلئے اس صورتحال میں زندگی گزارنا آسان نہیں۔ وہ پوری زندگی اس واقعے کی یاد اپنے ذہنوں سے نہیں نکال سکیں گے”۔
جب یہ بچے وزارت انصاف کے باہر مظاہرہ کررہے تھے تو ایک اعلیٰ عہدیدار نے باہر آکر انکی درخواست کو قبول کیا۔ Bon Yay Nartith وزارت انصاف کے افسر ہیں۔
(male) Bon Yay Nartith “وزارت انصاف اس معاملے کا نوٹس لے گی اور ہم ان بچوں کے مسائل کو حل کریں گے۔ ہم عدالت سے رجوع کرکے اس مقدمے کا جائزہ لیں گے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
Leave a Reply