Written by prs.adminSeptember 18, 2012
(Burmese diaspora: are they coming home soon?) برمی تارکین وطن
Asia Calling | ایشیا کالنگ . Politics Article
برما آمریت کے بعد اب جمہوری ملک بننے کی راہ پر چل رہا ہے، جس کے بعد یورپی یونین اور امریکہ نے برما پر عائد پابندیاں اٹھانا شروع کردی ہیں۔ تاہم دور آمریت میں بیرون ملک فرار ہونیوالے لاکھوں افراد کی واپسی اب بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
Thein Sein برما کے صدر ہیں۔
(male) Thein Sein “بیرون ملک مقیم برمی شہریوں کی وطن واپسی کیلئے ہماری کوششیں جاری ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مختلف شعبوں کے ماہر، کاروباری افراد اور شعبہ زندگی کے دیگر حلقوں سے تعلق رکھنے والے برمی افراد بیرون ملک سے واپس آجائیں”۔
برمی صدر نے یہ بات مئی میں اپنے ایک خطاب کے دوران کہی تھی، تاہم یہ صرف بیان نہیں، بلکہ معروف سیاسی شخصیات سمیت دیگر افراد کے نام حکومتی بلیک لسٹ سے بھی نکالے گئے، جس کے بعد اب وہ اپنے ملک میں آسانی سے آنے اور جانے کے قابل ہوگئے ہیں۔ کچھ رپورٹس کے مطابق بلیک لسٹ سے نکالے گئے دس افراد واپس آئے ہیں، تاہم اب بھی برمی افراد کی بڑی تعداد بیرون ملک مقیم ہے۔
Chiang Mai تھائی لینڈ کا دوسرا بڑا شہر ہے، جہاں لاکھوں کی تعداد میں برمی شہری مقیم ہیں،U Thein Win برما کی حزب اختلاف کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی یا این ایل ڈی کے رکن ہیں، وہ 1990ءمیں فوجی حکومت کی سختیوں کے بعد برما چھوڑ کر تھائی لینڈ آئے تھے۔اب وہ یہاں برمی تارکین وطن کو مفت تعلیم دے رہے ہیں۔
برما میں گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران پہلی بار دو برس قبل سویلین حکومت کا قیام عمل میں آیا، تاہم U Thein Win اپنے ملک میں آنے والی تبدیلی کے حوالے سے زیادہ مطمئن نہیں۔
(male) U Thein Win “میرے خیال میں برما میں تبدیلی تو آئی ہے مگر اس کا دائرہ اوپری طبقے تک محدود ہے۔نچلی سطح پر مجھے کسی قسم کی تبدیلی نظر نہیں آتی۔میرے خیال میں بالائی طبقے میں بھی ہر شخص تبدیلی کا خواہشمند نہیں، کچھ افراد ایسا چاہتے ہیں، کچھ نہیں۔ میرا ماننا ہے کہ برما میں حالیہ تبدیلیاں حقیقی جمہوری روایات کا عکس نہیں، بلکہ یہ صرف سطحی تبدیلیاں ہیں۔ مثال کے طور پر صدر نے فوج کو Kachin state پر حملے روکنے کا حکم دیا، مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ حالانکہ یہ حکم برمی ریاست کے سربراہ نے دیا مگر فوج نے اس پر عمل نہیں کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں حقیقی تبدیلیاں وقوع پذیر نہیں ہوئیں”۔
Chiang Mai سیاحوں میں بہت مقبول ہے، یہاں پانچ سو سے زائد برمی شہری مختلف دکانوں کے مالک یا بطور معاون کام کرتے ہیں۔متعدد افراد نے برما سیاسی وجوہات کی بناءپر نہیں بلکہ معاشی حالت بہتر بنانے کیلئے چھوڑا تھا۔ایک تخمینے کے مطابق تھائی لینڈ کے مختلف شہروں میں بیس لاکھ سے زائد برمی شہری قانونی یا غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔ Ko Maung تھائی شہر Chiang Mai میں چپلیں فروخت کرتے ہیں۔
(male) Ko “میں ریاست Kachin سے 2006ءمیں یہاں آیا تھا، برما میں میرے لئے اچھی ملازمت تلاش کرنا ناممکن ہوگیا تھا، اسی وجہ سے میں تھائی لینڈ آیا۔ اگر برما میں اچھی تبدیلیاں آئیںتو میں اپنے گھر واپس لوٹ جاﺅں گا، تاہم اس وقت تک میں یہاں رہنا ہی پسند کروں گا”۔
تھائی لینڈ وہ پہلا ملک تھا جہاں آنگ سان سوچی نے رہائی کے بعد سب سے پہلے یہا ں کا دورہ کیا، اس دورے کے دوران انھوں نے برمی تارکین وطن سے بنکاک میں ملاقات کی۔ اس موقع پر انکا کہنا تھا کہ برما کی ترقی کیلئے بیرون ملک مقیم افراد کو وطن واپس آنا چاہئے۔
آنگ سان سوچی(female) “ہمارا بنیادی مقصد ایسی صورتحال پیدا کرنا ہے جس سے بیرون ملک تمام برمی شہری اپنی مرضی سے پرامن طریقے سے وطن واپس آسکیں۔ ہمیں قوانین کے دائرے میں رہ کر نہ صرف تارکین وطن بلکہ برما کے ہر شہری کے حقوق کی حفاظت کرنا ہے۔ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کیلئے اس حوالے سے طریقہ کار مرتب کرنے کی کوشش کررہی ہوں، میں اس مقصد کے حصول کیلئے اپنی ہرممکن کوشش کروں گی۔ میں تارکین وطن برمی شہریوں کو کسی صورت نہیں بھول سکتی”۔
تاہم Chiang Mai میں مقیم برمی شہری واپس جانے کے حوالے سے تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں۔Mg Arkar بھی ایسے ہی ایک برمی شہری ہیں۔
(male) Mg Arkar “میں یہاں چھ برس سے مقیم ہوں، میں نے دوران تعلیم برما چھوڑا تھا، تھائی لینڈ آکر پہلے تو مجھے متعدد مشکلات کا سامنا ہوا، خصوصاً زبان کے باعث، مگر اب یہاں میری اپنی دکان ہے۔ جب برمی معیشت بہتر ہوجائے گی تو میں ایک دن اپنے گھر واپس لوٹ جاﺅں گا”۔
ایک خاتون تارکین وطن Daw Htay Htay کا اس بارے میں کہنا ہے۔
(female) Daw Htay Htay “برما میں ہمیں متعدد مشکلات کا سامنا تھا، مگر اب میں یہاں کافی عرصے سے مطمئن زندگی گزار رہی ہوں۔میں یہاں کے موسم، خوراک، پانی، زمین اور لوگوں سے مانوس ہوگئی ہوں۔ میں تھائی معاشرے سے مطابقت کرنے میں کامیاب ہوگئی ہوں اور اب میں کسی صورت برما واپس جانے کیلئے تیار نہیں”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply