Written by prs.adminMay 1, 2012
Burma’s Parliamentary Standoff برمی پارلیمانی عمل میں تعطل
Asia Calling | ایشیا کالنگ . Politics . Topic Article
(Burma parliament)برمی پارلیمنٹ
گزشتہ دنوں برمی پارلیمنٹ کے اجلاس کے موقع پر حزب اختلاف کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی یا این ڈی ایل غیرحاضر رہی، اس بائیکاٹ کے باعث آنگ سان سوچی پارلیمنٹ کی نشست کا حلف نہیں لے سکیں
پارلیمنٹ کے فوجی ارکان ایوان کی خالی نشستوں کے سامنے اپنا حلف اٹھا رہے ہیں، یہ لوگ عوامی ووٹنگ سے منتخب نہیں ہوئے، بلکہ انہیں فوج نے آئین کے تحت نامزد کیا ہے۔ برمی پارلیمنٹ کی پچیس فیصد نشستیں فوج کیلئے مختص ہیں۔ اس وقت یہ لوگ اسپیکر کی جانب سے بولے جانے والے الفاظ دوہراتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہم آئین کا ہرممکن تحفظ کریں گے۔
آئین کے تحفظ کیلئے بولے جانے لفظ Safeguard کے باعث ہی اپوزیشن لیڈر اور نومنتخب رکن پارلیمنٹ آنگ سان سوچی اور ان کی جماعت کے دیگر ارکان پارلیمنٹ کے اجلاس کے پہلے روز غائب نظر آئے۔ این ایل ڈی کا مطالبہ ہے کہ اس لفظ کو تبدیل کیا جائے۔پارٹی ترجمان Nyan Win کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ان کی جماعت کوئی مذاکرات نہیں کرے گی۔
(male) Nyan Win “جب این ایل ڈی نے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا تھا تو ہماری پارٹی نے پارلیمانی اجلاس میں حصہ لینے کا بھی فیصلہ کیا تھا، مگر حلف نامے کے الفاظ تبدیل ہونے تک ہم پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بن سکتے، ہم اپنے موقف پر قائم ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ایک دن یہ مسئلہ حل ہوکر رہے گا”۔
حکومت نے پارلیمنٹ کی نشست کیلئے حلف نامہ اس وقت تبدیل کیا جب این ایل ڈی نے ضمنی انتخابات میں شامل ہونے کیلئے حامی بھری، تاہم حکومت نے پارلیمانی حلف کیلئے 2008ءکے آئین میں اضافی الفاظ شامل کرادیئے۔ آنگ سان سوچی عوامی سطح پر فوجی حکومت کی جانب سے تیار کردہ آئین کی مخالفت کرتے ہوئے اسے غیرجمہوری قرار دے چکی ہیں۔ اور اب اس کے تحفظ کا حلف اٹھانا ان کے انتخابی وعدوں کی نفی ثابت ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ایک لفظ این ایل ڈی کیلئے ایک نئی جنگ شروع کرنے کا باعث بن گیا ہے۔تاہم حکمران جماعت Solidarity and Development یا یو ایس ڈی پی کے سیکرٹری جنرل Htay Oo کا نظریہ اس حوالے سے مختلف ہے۔
(male) Htay Oo “اس آئین کو تبدیل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے جس کی توثیق عوام کردیں۔ مجھے تو اس لفظ سیف گارڈ یا حفاظت کرنے اور لفظ احترام کرنے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ ہماری جماعت قومی مفاد میں کسی بھی پارٹی کے ساتھ کام کرنے کیلئے تیار ہے، ہم لوگ انتہائی احتیاط سے این ایل ڈی کے تحفظات پر غور کررہے ہیں”۔
این ایل ڈی ضمنی انتخابات میں 43 نشستوں میں کامیابی حاصل کرکے ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی بن گئی تھی۔ اس وقت این ایل ڈی کی ایوان بالا میں چار، ایوان زیریں میں 37 اور مقامی ریاستی پارلیمنٹ میں 2 نشستیں ہیں۔ برما کی قومی اسمبلی کو ہی آئین میں تبدیلی کی طاقت حاصل ہے، مگر یہاں فوج اور اس کے سیاسی حامیوں کو واضح اکثریت حاصل ہے۔این ایل ڈی کے سابق رکن اور ایک نئی جماعت National Democracy Party کے چیئرمین Thein Nyut کا کہنا ہے کہ این ایل ڈی کا مطالبہ پورا ہونے کا امکان نظر نہیں آتا۔
(male) Thein Nyut “آئینی ترامیم یو ایس ڈی پی اور فوجی نمائندگان کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں، کیونکہ انہیں پارلیمنٹ کی اسی فیصد نشستیں حاصل ہیں، جبکہ آئینی ترامیم کیلئے پارلیمنٹ کی 75 فیصد اکثریت کی حمایت ضروری ہے”۔
Ko Ko Gyi جمہوریت پسند تحریک The 88 Generation Group کے رہنماءہیں۔
(male) Ko Ko Gyi “موجودہ آئین انتہائی سخت ہے اور اس میں ترامیم کا حق مکمل طور پر یو ایس ڈی پی اور فوج کو حاصل ہے، اور این ایل ڈی کے بائیکاٹ کے بعد ایک بار پھر گیند حکمران اتحاد کے کورٹ میں چلی گئی ہے۔ ان کی اجازت کے بغیر کوئی بھی پیشرفت ممکن نہیں، تاہم موجودہ آئین میں ترامیم کی ضرورت ہے تاکہ جمہوری اقدار اور لسانی مسائل کو حل کیا جاسکے۔ تمام سیاسی جماعتوں کوان معاملات پر ملکر کام کرنا چاہئے۔ میرے خیال میں این ایل ڈی دوسرے گروپس کے ساتھ ملکر کام کرنا چاہتی ہے، اور موجودہ تنازعہ حلف نامے کے الفاظ پر ہے، جس سے تعاون کا یہ عزم متاثر نہیں ہوگا”۔
جاپان کے حالیہ دورے کے دوران برمی صدر Thein Sein نے کہا کہ پارلیمانی حلف پر نظرثانی ممکن ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ نظرثانی فوج کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں، اور فوجی حمایت کی ضمانت صدر کی جماعت یو ایس ڈی پی نہیں دے سکتی۔مارچ میں ایک فوجی تقریب کے دوران برمی فوج کے سربراہ جنرل Min Aung Hlaing کا کہنا تھا کہ فوج آئین کا تحفظ کرے گی۔
(male) Min Aung Hlaing “آئین کے تحت فوج کو آئین کے تحفظ کیلئے اہم کردار دیا گیا ہے، یہ اب فوج کی ذمہ داری ہے۔ لہذامستقبل میں برما کو ایک جمہوری اور ترقی یافتہ ملک بنانے کیلئے فوج آئین کے تحفط کی ذمہ داری کو ہر حال میں پورا کرے گی”۔
عالمی برادری اس صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے، اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی حال ہی میں برما کا دورہ کیا۔اس موقع پر انکا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ این ایل ڈی اور حکومت اس مسئلے کو ملکر حل کرلیں گے۔ Ko Ko Gyi بھی اس حوالے سے کافی پرامید نظر آتے ہیں۔
(male) Ko Ko Gyi “برمی سیاست غیر روایتی ہے اور یہ پارلیمنٹ پر انحصار نہیں کرتی۔ ملکی ترقی کیلئے پارلیمنٹ سے باہر مذاکرات اور مصالحت کو بھی انتہائی ضروری سمجھا جاتا ہے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply