Written by prs.adminJuly 19, 2013
Bridging the deep divides between the two Koreas – دونوں کوریائی ممالک کے درمیان خیلج بھرنے کی کوشش
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان جنگ کو اب لگ بھگ ساٹھ برس مکمل ہوگئے ہیں، اس عرصے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان کیشدگی بڑھی ہے۔ اس حوالے سے شمالی کوریا سے جنوبی کوریا آنے والے پناہ گزینوں کو کافی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، اور انہیں کافی امتیازی سلوک کا سامنا ہوتا ہے، تاہم ایک ادارہ اس صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
ہر ہفتے بروز بدھ لی من یونگ اپنے نئے دوستوں کو انگریزی کلاسوں میں خوش آمدید کہتی ہے،وہ یونیورسٹی کی طالبہ ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس زبان کو سیکھنے سے انکی زندگی تبدیل ہوکر رہ گئی ہے، مگر اب بھی وہ کورین بولنے کو ہی ترجیح دیتی ہے۔
لی”میں انگریزی سیکھ کر بہت لطف اندوز ہوتی ہوں، اس سے مجھے دیگر ممالک کے افراد سے ملنے کا موقع ملتا ہے جو میرے ساتھ ایک اچھے دوست جیسا رویہ اختیار کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ بہت اچھا محسوس کرتی ہوں اور میرے خیال میں میری زندگی اب زیادہ دلچسپ ہوگئی ہے”۔
تاہم لی من یونگ کو پہلے انگریزی سیکھنے کا موقع میسر نہیں تھا، وہ ایک شمالی کورین پناہ گزین ہے اور وہ دس برس قبل اپنے خاندان کے بغیر جنوبی کوریا میں داخل ہوئی۔
لی”جب میں پہلی بار آئی تو مجھے ایک ثقافتی دھچکہ لگا، یہاں کا تعلیمی نظام، لوگوں طرز زندگی اور فکر، میرے تصورات سے بالکل مختلف تھا۔ یہاں تک کہ شمالی کورین افراد کے بولنے کا انداز بھی جنوبی کورین عوام سے مختلف ہے، یہی وجہ ہے کہ مجھے یہاں لوگوں سے بات چیت کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا”۔
لی من یونگ کی یہ مفت انگریزی کلاسز ایک این جی او پیپلز فار سکسیسفل کورین ریانفیکیشن ےا مختصر اً پی ایس سی او آر ای کے تعاون سے ہورہی ہیں۔ یہ این جی او جنوبی و شمالی کورین افراد کے درمیان ثقافتی و تعلیمی خلاءکو پر کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس این جی او کے بانی کم جونگ یل خود ایک پناہ گزین ہیں جو 2001ءمیں جنوبی کوریا آئے تھے۔
کم جونگ ال”نوجوان پناہ گزینوں کو یہاں کے تعلیمی نظام میں جگہ بنانے میں کافی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ شمالی کوریا میں تعلیمی معیار کافی ناقص ہے، اس لئے وہ یہاں آکر خود کو کافی پیچھے محسوس کرتے ہیں۔ شمالی کوریا میں ہمیں صرف لیڈرزکم ال سونگ یا کم جونگ یل کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔ تمام مضامین ان رہنماﺅں کی عظمت اجاگر کرنے کیلئے ہوتے ہیں، اور لگتا ہے کہ پورا تعلیمی نظام اسی نقطہ کے گرد گھوم رہا ہے”۔
دو ہزار چھ میںپی ایس سی او آر ای کے قیام کے بعد سے اس کے تحت چھ سو شمالی کورین نوجوانوں کو مختلف کورسز کرائے گئے ہیں، ان میں انگریزی، کمپیوٹر اور ریاضی کے کورسز شامل ہیں۔ کم یونگ یل کا کہنا ہے کہ یہ وہ کورسز ہیں جو جنوبی کورین یونیورسٹیوں میں داخلے اور یہاں کے مسابقتی معاشرے میں بقاءکیلئے ضروری ہیں۔ جنوبی کوریا کی وزار ت یونیفیکیشن کے مطابق شمالی کورین پناہ گزینوں میں بے روزگاری کی شرح ساڑھے سات فیصد کے قریب ہے، جو کہ قومی اوسط سے دوگنا زائد ہے۔ اسی طرح جو پناہ گزین ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں انہیں دیگر مقامی شہریوں کے مقابلے میں کم تنخواہیں دی جاتی ہیں، تاہم کم کا کہنا ہے کہ شمالی کورین افراد کو تعلیم کے ساتھ دیگر چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔
کم”ہمیں جنوبی کورین افراد کے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہمیں ایک غریب تارکین وطن ہی سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کچھ شمالی کورین افراد اپنے ملک کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ چین کے قبائلی کورین گروپ سے تعلق رکھتے ہیں، کیونکہ ان کے خیال میں اس سے ان کے ساتھ بہتر سلوک ہوگا”۔
شن من نیو جنوبی کوریا میں ان پناہ گزینوں کی بحالی نو کیلئے قائم گروپ سائی جووی اینیشیٹو فار نیشنل انٹیگریشن کی سربراہ ہیں، انکا کہنا ہے کہ شمالی کورین افراد کے بارے میں لوگوں کی سوچ میں کافی غلط تصورات پائے جاتے ہیں۔
شن”مقامی افراد شمالی کورین حکومت اور شمالی کورین شہریوں کو ایک ہی نظر میں دیکھنے کے عادی ہیں، لوگوں کے خیال میں ہم شمالی کوریا کو جو امداد دیتے ہیں وہ ضائع جاتی ہے اور وہ ہمیں دھوکہ دیتے ہیں۔ اس خیال نے شمالی کوریا مخالف جذبات کو فروغ دیا ہے جس کا سامنا پناہ گزینوں کو کرنا پڑتا ہے اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک شروع ہوجاتا ہے”۔
انکا کہنا ہے کہ اس ناانصافی کا خاتمہ تعلیمی نظام سے ممکن ہے جس میں جنوبی کورین افراد کو سمجھا جایا جائے کہ وہاں کی حکومت اور عوام کے درمیان کیا فرق ہے۔
پی ایس سی او آر ای کی کلاسز میں غیر ملکی رضاکاروں کیساتھ جنوبی کورین افراد بھی شمالی کورین پناہ گزینوں کو تعلیم دینے کا کام کرتے ہیں۔کم گنا بھی تین ہفتوں سے یہ کام کررہی ہیں۔ وہ اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ بیشتر جنوبی کورین افراد کو ان پناہ گزینوں کی کوئی پروا نہیں، تاہم اگر یہ لوگ ان کے قریب آئیں تو ان کی رائے بدل جائے گی۔
گنا”جب میں اپنے جنوبی کورین دوستوں کو بتاتی ہوں کہ میں شمالی کورین پناہ گزینوں کو پڑھا رہی ہوں، تو وہ میرے بارے میں فکرمند ہوجاتے ہیں۔ وہ مجھے کہتے ہیں کہ کیا وہ لوگ مجھے تنگ تو نہیں کرتے یا گھورتے تو نہیں، جس پر میں کہتی ہوں وہ بھی ہمارے جیسے عام انسان ہیں، جو کام کرتے ہیں اور بالکل ہمارے جیسے ہیں۔ ہماری آپسی مشابہت نے مجھے واقعی بہت حیران کیا ہے”۔
لی من یونگ کا کہنا ہے کہ پی ایس سی او آر ای میں جنوبی کورین افراد سے ملاقاتوں نے اس کے ذہن کو مزید کھول دیا ہے۔
لی”جب سے میری پی ایس سی او آر ای میں جنوبی کورین رضاکاروں سے ملاقات ہوئی ہے، مجھے لگتا ہے کہ میں نے جنوبی کوریا کے بارے میں کافی کچھ سیکھا ہے، جو اس سے پہلے مجھے معلوم نہیں تھا۔ اس سے پہلے میں جنوبی کورین شہریوں کے بارے میں کافی غلط تصورات رکھتی تھی اور مجھے لگتا تھا کہ ان سب کے دو چہرے ہوتے ہیں، مگر اب مجھے ایسا نہیں لگتا”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |