Written by prs.adminMarch 10, 2014
ASEAN: “Diversity means there is no one answer” – آسیان میڈیا
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
جنوب مشرقی ایشیاءمیں صحافیوں کو وہاں کی طرح طرح ثقافت کے باعث رپورٹس کی تیاری میں کافی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، آئندہ برس کے شروع میں آسیان تنظیم کے دس رکن ممالک ایک برادری کی شکل اختیار کرلیں گے، آسیان ممالک کے صحافیوں کے اس حوالے سے خیالات بتارہے ہیں کمیونٹی افیئرز ڈویلیپمنٹ آف دا آسیان سیکریٹریٹ کے ڈائریکٹرڈینی لی، انکا انٹرویو سنتے ہیں آج کی رپورٹ میں
ڈینی لی”جب نجی میڈیا کسی حکومت پر تنقید کرتا ہے، یعنی دس میں سے ایک ملک میں تو اس کی ساکھ کیا ہوتی ہے؟ انہیں کیا معلومات حاصل ہوتی ہے؟ اور یہ کہ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ صاف ظاہر ہے سننے والے اس بات کا فیصلہ کریں گے، اگر سامعین کو علم ہوا کہ آپ کی تنقید فرضی یا جعلی ہے، تو وہ پھر آپ کو دوبارہ نہیں سنیں گے، یا وہ آپ کی ویب سائٹ پر جانا چھوڑ دیں گے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مارکیٹ کو قوانین کے دائرے میں لانا چاہئے، یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ لوگ بہت تند و تیزقسم کے بیانات سے لطف حاصل کرتے ہیں، مگر اچھی بات یہ ہے کہ ہم ہر بات کو نظرانداز نہیں کرتے، درحقیقت انتہاپسند سوچ رکھنے والے اقلیت میں ہے، اکثریت ان افراد کی ہے جو اس بات کو تسلیم کرتی ہے ہم دیگر ممالک سے مختلف ہیں، یا ان کی سوچ ہوتی ہے کہ ہمارا ملک مسائل کو دیگر ممالک سے مختلف انداز میں حل کرتا ہے، کئی بار آپ کسی اور ملک، کسی غیرملکی شخص کو زیادہ بہتر نہیں جانتے “۔
سوال”مگر آپ دیگر ممالک کی خبروں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، لسانی اور ثقافتی خبروں میں 2015ءکے بعد مزید تقسیم پیدا ہوگی یا آسیان میں نیوز روم کی تعداد بڑھے گی؟
ڈینی لی”اگر آپ موجودہ دور کا جائزہ لیں تو انٹرنیٹ اور ہمارے نوجوان نمایاں نطر آئیں گے، ہمارے نوجوان زیادہ منفرد اور مختلف معلومات چاہتے ہیں، ٹیکنالوجی جیسے انٹرنیت کے ذریعے مختلف آوازیں سامنے آرہی ہیں، کیا یہ رجحان کم ہوگا یا بڑھے گا؟ یہ بڑھے گا، مختلف آوازیں بڑھے گی، رنگا رنگ ثقافت کا مطلب ہی یہ ہے کہ کسی سوال کا ایک جواب نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کے کئی جواب ہوں گے، مختلف معاملات پر لوگوں کی آراءایک دوسرے سے مختلف ہوسکتی ہے یا وہ اسے مختلف انداز میں دیکھتے ہیں، یہ چیز بحث کا موضوع بنتی ہے اور ان پر طرح طرح کی آراءسامنے آتی ہے، 2015ءکے بعد مجھے یقین ہے کہ آسیان میڈیا کے کام میں زیادہ تیزی آئے گی”۔
سوال”کیا میڈیا آسیان کی نئی شناخت بناسکے گا؟ اور یہ کیسے ہوگا؟
ڈینی لی”آسیان ہماری شناخت اور مختلف ثقافتوں کی عکاسی کرتا ہے، تقسیم کا مطلب یہ ہے کہ ہم آپ واحد نہیں، خطے میں امن و استحکام ہو تو تنہا شناخت کو تسلیم کیا جاسکتا ہے، ہمیں ہر حکومت کا احترام کرنا چاہئے، اس چیز کو وسیع نقطہ نظر سے دیکھا جانا چاہئے، ہر ایک کے خیالات مختلف ہوسکتے ہیں، یہی آسیان ممالک کی خاصیت ہے، اور یہ رجحان برقرار رہے گا”۔
سوال”آپ کے خیال میں موجودہ عہد اور مستقبل میں سنگل برادری کے قیام کے بعد رپورٹنگ میں کیا بنیادی مسئلہ سامنے آئے گا؟
ڈینی لی”مختلف معاشرتی سوچ کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ کسی بات پر کچھ لوگ متفق ہوں گے کچھ اس کے خلاف ہوں گے، تو گیم کا حصہ ہے یہ، یہاں کسی بات کا ایک جواب نہیں ہوسکتا کیونکہ ہر ایک اس جواب سے خوش نہیں ہوگا، آپ کو متعدد اور مختلف جوابات دینے ہوں گے تاکہ ہر ایک اسے پسند کرسکے”۔
سوال”اب صحافتی آزادی کی بات ہوجائے، ہر ملک میں پریس کا زیادہ آزادی حاصل نہیں، مثال کے طور پر انڈونیشیاءمیں کچھ جگہوں پر رپورٹرز کیلئے کام کرنا آسان نہیں، اسی طرح برما اور فلپائن کا معاملہ ہے، آپ کے خیال اس طرح کے مسائل پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے؟
ڈینی لی”اگر ہم صحافتی آزادی کی بات کریں گے، تو میں کہنا چاہوں گا کہ اس آزادی کا تعلق ہر ملک کی سوچ پر ہوتا ہے، ہر ملک میں پریس کی ترقی کا اپنا پیمانہ ہے، ہر ملک فیصلہ کرتا ہے کہ پریس کو کس حد تک آزادی دی جانی چاہئے، یا میڈیا کو کس حد تک سرگرم رکھنا چاہئے، یہ وہ معاملہ ہے جس پر آسیان خود کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی، ہر رکن ریاست کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ہر ملک میں کچھ حصوں میں حالات ہوسکتا ہے کہ زیادہ بہتر نہ ہو مگر میرے خیال میں مجموعی صورتحال اتنی بری بھی نہیں”۔
سوال”تو آپ کے خیال میں حکومتوں کی سوچ میں لچک پائی جاتی ہے؟
ڈینی لی”جی ہاں میرے خیال میں سرگرمیاں بڑھ رہی ہے، تاہم ہر جگہ ایک ہی جیسی سوچ نہیں پائی جاتی اور نہ ایسا ہوسکتا ہے۔ ہر ایک کا نظریہ ایک نہیں ہوسکتا ہے جیسا میں نے کہا کہ ترقی ہورہی ہے مگر وہ یکساں نہیں، بلکہ اس میں ثقافتی تضاد پایا جاتا ہے، اس سے مسائل تو پیدا ہوتے ہیں مگر مواقع بھی سامنے آتے ہیں۔ آپ کو مسائل کیساتھ ساتھ مواقعوں سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے، اسی سے توازن پیدا ہوگا”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |